غزہ میں جنگ بندی پر جشن کے ساتھ ہی اہل فلسطین ملی جلی اور متضاد جذباتی کیفیت سے دوچار، جنگی جہازوں کی گڑگڑاہٹ اور بموں کے دھماکے تو رُک گئے مگر غزہ میں کوئی گھر ایسا نہیں جس نے کسی کو کھویا نہ ہو۔
EPAPER
Updated: January 20, 2025, 9:46 AM IST | Gaza
غزہ میں جنگ بندی پر جشن کے ساتھ ہی اہل فلسطین ملی جلی اور متضاد جذباتی کیفیت سے دوچار، جنگی جہازوں کی گڑگڑاہٹ اور بموں کے دھماکے تو رُک گئے مگر غزہ میں کوئی گھر ایسا نہیں جس نے کسی کو کھویا نہ ہو۔
۱۵؍ ماہ کی طویل جنگ کےبعد اتوار کو غزہ میں جنگ بندی نافذ ہوگئی۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق اس کا نفاذ صبح ساڑھے۹؍ بجے ہوجانا چاہئے تھا مگر حماس کی جانب سے اُن ۳؍ یرغمالوں کے نام نہ ملنے کا بہانہ بنا کر جنہیں رہا کیا جانے والا ہے، تل ابیب نے آخری دن بھی صبح سوا ۱۱؍ بجے تک حملے جاری رکھے۔ بہرحال سوا ۱۱؍ بجے جنگ بندی نافذ ہوتے ہی پورے علاقے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور جنگ کے دوران اپنے چہیتوں کو کھودینے والے افراد نیز وہ لوگ جو حملوں میں زخمی ہونے کے بعد زندگی بھر کیلئے معذور ہوچکے ہیں، بھی خوشی سے چیخ اٹھے۔ البتہ اس خوشی میں بہت کچھ کھو دینے کا غم بھی شامل ہے جس کی وجہ سے اہل فلسطین ملی جلی اور متضاد جذباتی کیفیت سے دوچار ہیں۔
خوشی اور غمی کے مشترکہ جذبات کا اظہار مشکل
غزہ میں اتوار کو جنگ بندی کے نفاذ کے بعد عمومی طور پر خوشی کا ماحول ہے۔ لوگ باگ بمباری کے بعد ملبے سے اٹی سڑکوں کو عبور کرتے ہوئے اپنے تباہ حال گھروں کی جانب گامزن نظر آئے مگر جب انفرادی طور پر لوگوں سے گفتگو کی گئی تو ۱۵؍ ماہ کی طویل جنگ میں اپنے چہیتوں کو کھودینے کا غم واضح طورپر چھلک اٹھا۔ اس میں یہ اندیشہ بھی شامل ہے کہ یہ جنگ بندی مستقل رہتی ہے یا پھر اسرائیل کوئی بہانہ بنا کر اس کی خلاف ورزی کرتا ہے جو اس کی پرانی عادت ہے۔ ۴۱؍ سالہ طاہر المصری جن کا تعلق بیت الاہیا سے ہے اور جو خیمے میں مقیم ہیں، نے غزہ میں ’دی گارجین ‘کی نمائندہ ملک اے طنتیش کے استفسار پر برملا کہا کہ ’’سمجھ میں نہیں آتا کہ جو کچھ ہوا ہے اس پر ہم ماتم کریں، خوش ہوں یا روئیں۔ اس وقت (جنگ بندی کی تمام تر خوشی کے باوجود) جو حقیقی جذبات ہم پر طاری ہیں وہ تکلیف اور کھودینے کا احساس ہے۔ اپنا گھر اپنے دوست اور اپنے شہر کو کھودینے کا شدید احساس۔ ‘‘
گھر کے ۱۲؍ افراد کو کھودینے کا غم
واضح رہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے مقصد سے گزشتہ ۱۵؍ ماہ سے اسرائیل کے ذریعہ کئے جانے والے حملوں میں غزہ کا شاید ہی کوئی خاندان ایسا ہو جس نے اپنے کسی عزیز کو نہ کھویا ہو۔ ‘‘خیمہ میں موجود عبداللہ نے کہا کہ ’’میں خود کو سمجھ نہیں پارہا ہوں۔ پہلے میں خوش تھا پھر غم طاری ہوگیا۔ میں افسردہ ہوں کہ ہم جیسے تھے ویسے نہیں ہوپائیں گے۔ جو جانیں جا چکیں وہ اب کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گی۔ ‘‘ انہوں نےبتایا کہ’’ہم نے بہت سے رشتہ دونوں اور لوگوں کو کھو دیا ہے۔ میں نے اپنے خاندان کے ۱۲؍ افراد کھوئے ہیں۔ میری بہن اور اس کا پورا خاندان ختم ہوچکاہے۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی صرف ۸؍ دنوں کی تھی۔ مجھے ڈر ہے کہ جنگ بندی کہیں ناکام نہ ہو جائے۔ ‘‘
آنکھوں سے نیند غائب ہوگئی
۴۰؍ سالہ اُم عبداللہ جوالمساوی میں آباد کی گئی خیموں کی عارضی بستی میں کئی مہینوں سے مقیم ہیں، نے بتایا کہ ’’اتنی بے چینی رہتی ہے کہ راتوں کو نیند نہیں آتی۔ ‘‘ غیر یقینی صورتحال کا اظہار کرتے ہوئے وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’’میں جنگ بندی کے نفاذ کے انتظار میں ایک ایک گھنٹہ اور ایک ایک منٹ گن رہی تھی مگر ساتھ ہی یہ خوف بھی تھا کہ ہم کہیں جنگ کے بالآخری منٹوں میں نہ مار دیئے جائیں۔ اس لئے جب تک جنگ بندی کا نفاذ نہی ہوگیا، ہم لوگ خیموں کے اندر ہی رہے۔ ‘‘
غزہ کی ۹۰؍ فیصد آبادی بے گھر
تباہ کن جنگ کے بعد پورا غزہ کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ غزہ کی ۲۳؍ لاکھ آبادی میں سے ۱۹؍ لاکھ افراد بے گھر ہیں۔ ۹۲؍ فیصد رہائشی عمارتیں، ۸۲؍ فیصد سڑکیں اور ۸۸؍ فیصد اسکول تباہ ہوچکے ہیں۔ لوگ گھر واپسی کیلئے خوش تو ہیں مگر جن گھروں میں وہ لوٹنا چاہتے ہیں وہ اسرائیلی بمباری کے بعد کھنڈر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود غزہ کے شہری نئی جدوجہد کیلئے پرعزم ہیں۔ اُم صالح نے جنگ بندی کے نفاذ پر خوشی کااظہار کرتے ہوئے چیختے ہوئے کہا کہ ’’ میں آج بے انتہا خوش ہوں۔ جنگ بندی پر اتفاق کے اعلان کےبعد سے ہی میں نے اپنا سازوسامان اکٹھا اور باندھنا شروع کردیا تھا۔ میں غزہ شہر واپس جانے کیلئے پوری طرح تیار ہوں۔ میرے بچے بھی بہت خوش ہیں کہ واپس جائیں گے اور اپنی زمین پر خاندان کے سب لوگ مل جل کر رہیں گے۔ ‘‘خیموں کی زندگی کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ ’’یہاں ہم ہر وقت ڈرے ہوئے اور خوفزدہ رہتے تھے۔ اپنے گھر واپس جا کر ہم خوش رہیں گے، وہاں ہماری خوشیاں لوٹ آئیں گی۔ ‘‘ ایک نوجوان نےبتایاکہ’’ہرکوئی خوش ہے، خاص طور سے بچے بہت خوش ہیں۔ ‘‘الجزیرہ کے ہانی محمود نے بھی اہل غزہ کی خوشی میں شامل ہوتے ہوئے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ’’کوئی بم نہیں برس رہا، فضا میں جنگی جہاز گڑ گڑا رہے ہیں نہ ڈرون گشت کررہے ہیں۔ بندوق داغنے کی جو آوازیں وقفہ وقفہ سے آرہی ہیں وہ خوشی میں کی جانےوالی فائرنگ کی ہیں۔ ‘‘