• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’اسرائیلی حملوں کے سبب مذاکرات دوبارہ صفر پر آسکتے ہیں‘‘

Updated: July 10, 2024, 1:18 PM IST | Agency | Gaza

اسماعیل ہانیہ نے کہا کہ جنگ بندی کیلئےحماس نے ہرممکن لچک دکھائی پھر بھی نیتن یاہو نسل کشی پرقائم۔

Ismail Haniyeh, the leader of Hamas. Photo: INN
اسماعیل ہانیہ۔ تصویر : آئی این این

اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں سے جنگ بندی کے مذاکرات دوبارہ صفر کی سطح پر آسکتے ہیں۔ انہوں نے ثالث ممالک مصر اور قطر کی قیادت سے فون پر جنگ بندی کیلئے کی جانے والی کوششوں اور غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ حماس نے جنگ بندی معاہدے کے لیے ہرممکن لچک دکھائی مگر صہیونی دشمن ریاست اور اس کا سربراہ نتن یاہو اپنی ہٹ دھرمی اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی مجرمانہ پالیسی پر قائم ہے۔ حماس نے ٹیلی گرام پر پوسٹ کردہ ایک بیان میں کہا کہ ہانیہ نے ثالث ممالک کی قیادت کے ساتھ فون پر بات کی جس میں انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کی فوج کو مذاکرات کے ممکنہ خاتمے کے لئے مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہرایا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ بالخصوص رفح میں انسانی المیہ ایک خطرناک شکل اختیار کرسکتا ہے۔ حماس نے مزید کہا کہ نتن یاہو غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لئے ایک معاہدے تک پہنچنے کی خاطر ہونے والے مذاکرات کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حماس ایک طرف لچک دکھارہی ہے مگر دوسری طرف صہیونی دشمن فلسطینیوں کی نسل کشی، جبری نقل مکانی، ان کے قتل عام اور ان کی تذلیل کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ دشمن نے حماس کی جنگ بندی کے لیے دکھائی جانے والی ہر لچک کا منفی جواب دیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ حماس نے ثالث ممالک سے نتن یاہو کی چالوں اور جرائم کو روکنے کے لیے مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسماعیل ہانیہ نے کہا کہ صہیونی قابض فوج نے غزہ شہر کے آس پاس کے علاقوں کے خلاف اپنی جارحیت میں اضافہ کرتے ہوئے دسیوں ہزار شہریوں کو نشانہ بنایا اور انہیں وحشیانہ بمباری کے بوجھ تلے اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ یہ غزہ میں ہمارے فلسطینی عوام کے خلاف۹؍ ماہ سے زائد عرصے سے جاری تباہی کی جنگ کا تسلسل ہے۔ فاشسٹ قابض حکومت تمام بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK