• Fri, 27 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مشرق وسطیٰ میں حالات دھماکہ خیز، جنگ کادائرہ وسیع ہونے کا اندیشہ

Updated: August 01, 2024, 11:00 AM IST | Gaza

اسماعیل ہانیہ کے قتل کو ماہرین نے اسرائیل کی بہت بڑی بھول قراردیا، متنبہ کیاکہ اس کا سب سے بڑا نقصان تل ابیب کو خود اٹھانا پڑےگا۔ چین، روس اور دیگر ممالک نے ’’ناقابل قبول سیاسی قتل‘‘ قراردیا۔

Palestinian citizens in the West Bank are protesting against the killing of Haniyeh. Photo: PTI.
مغربی کنارہ میں  فلسطینی شہری ہانیہ کے قتل کےخلاف احتجاج کررہے ہیں۔ تصویر: پی ٹی آئی۔

ایران میں  حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو نشانہ بنائے جانے کےبعد مشرق وسطیٰ میں  حالات دھماکہ خیز ہوگئے ہیں۔ جنگ کا دائرہ وسیع ہونے کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔ چین اور روس نے اسماعیل ہانیہ کے قتل کو ’’ناقابل برداشت سیاسی قتل‘‘قراردیا ہے جبکہ ایران اور حماس نے سخت انتقام کی دھمکی دی ہے۔ اس بیچ ماہرین نے بھی اسماعیل ہانیہ کے قتل کو اسرائیل کی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی سب سے بڑی قیمت خود اسرائیل کو چکانی پڑے گی۔ اسرائیل نے اس خبر کے لکھے جانے تک ہانیہ کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں  کی ہے تاہم پوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ قتل ایران میں  موجود یہودی ایجنٹوں  نے کیا ہے۔ 
اسرائیل کو قیمت چکانی پڑے گی
تہران یونیورسٹی کے پروفیسر محمد مراندی نے ایران میں   اسماعیل ہانیہ کے قتل کے حوالے سے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے نشاندہی کی ہےکہ اس کے نتائج یہودی ریاست کیلئے تباہ کن ہوں گے۔ ان کے مطابق’’ میں  سمجھتا ہوں کہ جواب بہت ہی سخت ہوگا۔ ‘‘ا نہوں نے اس ضمن میں  خود ایران کی جانب سے جوابی کارروائی کے بہت زیادہ سخت ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’شام میں   ایرانی سفارتخانہ پر اسرائیلی حملے کے بعد ایران نے تل ابیب کے خلاف جو کارروائی کی تھی، اسماعیل ہانیہ کے قتل کے جواب کی جانے والی کارروائی یہودی ریاست کیلئے اس سے زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوگی۔ ‘‘انہوں نے متنبہ کیا کہ ایران اور حماس ہی نہیں خطے میں ان کے اتحادی عراق، یمن اور لبنان میں  سرگرم ہیں، وہ بھی اسماعیل ہانیہ کے قتل کے انتقام میں   اسرائیل کے خلاف کارروائیوں  کو انجام دیں گے۔ 
’’ناقابل قبول سیاسی قتل‘‘
روس کے نائب وزیر خارجہ میخائل بوگدانوف نے کہا کہ روس حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہانیہ کے ’ناقابل قبول سیاسی قتل‘ کی مذمت کرتا ہے۔ انہوں   نے سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ریا‘ سے گفتگو میں  کہا کہ ’’یہ مکمل طور پر ناقابل قبول سیاسی قتل ہے، جو کشیدگی میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔ ‘‘ 
چین نے بھی حماس کے سربراہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے گہری تشویش کااظہار کیا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لن جیان نے کہا ہےکہ ’’ہم اس واقعہ کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔ اس سے خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے، چین ہمیشہ بات چیت کے ذریعے علاقائی تنازعات کو حل کرنے کے حق میں رہتا ہے۔ ‘‘انہوں نے کہا کہ’’ غزہ میں جلد از جلد ایک جامع اور مستقل جنگ بندی کا نفاذ کیا جانا چاہیے تاکہ تنازعات اور تصادم کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکے۔ ‘‘
’’اسرائیل خود ہی امن نہیں  چاہتا‘‘
ترکی نے اسماعیل ہانیہ کےقتل کو ’’گھناؤنی حرکت‘‘ قراردیتے ہوئےکہا ہےکہ ان کا قتل ایک بار پھر یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل کی نیتن یاہو حکومت امن کے حصول کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ انادولو نیوز ایجنسی کے مطابق ترک وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ اگر بین الاقوامی برادری نے اسرائیل کو روکنے کیلئےاقدام نہیں کئے تو خطے کو بہت بڑے تنازع کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 
عباس کی فلسطینیوں سے متحد ہونے کی اپیل
فلسطین کے صدر محمود عباس نے اسماعیل ہانیہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینیوں سے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ وفا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی اتھاریٹی کے صدر محمود عباس نے اسماعیل ہانیہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اس حرکت کو بزدلانہ کارروائی اور خطرناک پیش رفت قرار دیا ہے۔ وفا نے رپورٹ کیا ہے کہ محمود عباس نے فلسطینیوں سے متحد ہونے، اسرائیلی قبضے کے مقابلے میں صبر اور ثابت قدم رہنے پر زور دیا ہے۔ 
مشر ق وسطیٰ میں  افراتفری کا اندیشہ
قطر کی وزارت خارجہ نے تہران میں  قتلکی واردات کی مذمت کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ یہ قتل اور غزہ میں شہریوں کو مسلسل نشانہ بنانے کا لاپروائی پر مبنی اسرائیلی رویہ خطہ میں  افراتفری کا باعث بن سکتا ہے اوراس سے امن کے امکانات کوشدید نقصان پہنچے گا۔ قطرنے اس بات پر برہمی کااظہار کیا کہ جو شخص مصالحت کار کے طو رپر مذاکرات میں شریک ہورہاتھااسے ہی تل ابیب نے نشانہ بنا دیا ہے۔ 
افغانستان کی طالبان حکومت نے اسماعیل ہانیہ کے قتل کو عالم اسلام کا ’ بہت بڑا نقصان‘ قرار دیا اور کاہ کہ وہ ایک ذہین اور وسائل رکھنے والے فلسطینی رہنما تھے۔ افغانستان کے ترجمان نے کہا کہ قربانی کا سبق اپنے پیروکاروں کے لیے چھوڑا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK