اسرائیلی جارحیت کے دوران غزہ میں بارش کی وجہ سے فلسطینیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ بارش کی وجہ سے کئی فلسطینیوں کے خیمے اور سامان زیر آب ہوگئے ہیں۔ فلسطینیوں کے مطابق خیموں کی حالت اتنی خراب ہے کہ تھوڑی بارش میں بھی یہ زیر آب ہوسکتے ہیں۔
EPAPER
Updated: September 24, 2024, 4:50 PM IST | Jerusalem
اسرائیلی جارحیت کے دوران غزہ میں بارش کی وجہ سے فلسطینیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ بارش کی وجہ سے کئی فلسطینیوں کے خیمے اور سامان زیر آب ہوگئے ہیں۔ فلسطینیوں کے مطابق خیموں کی حالت اتنی خراب ہے کہ تھوڑی بارش میں بھی یہ زیر آب ہوسکتے ہیں۔
غزہ جنگ سے متاثرہ فلسطینیوں کو نئی تباہی کا سامنا ہے کیونکہ فلسطینی خطے میں اچانک بارش کے سبب ان کی زندگی مزید مشکلات میں گھر گئی ہے۔ غزہ کے متعدد علاقوں میں ،جہاں اسرائیل نے ۳۵۳؍ دن حملے کئے ہیں،بارش کی آمد اور سیلاب کی وجہ سے فلسطینیوں کے خیمے اور سامان زیر آب ہوگئے ہیں۔ خیال رہے کہ غزہ میں ۲؍ ملین سے زائد فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں۔ جنگ کے دوران فلسطینی دوسری مرتبہ موسم باراں کو برداشت کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ غزہ کے کئی عارضی خیموں،جن میں کئی فلسطینی ایک سال سے زائد عرصے سے زندگی بسر کر رہے ہیں، کی حالت خراب ہوچکی ہے اور وہ رہائش کے قابل نہیں رہ گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگونت سنگھ مان کی کابینہ میں توسیع
غزہ حکومت نے ۱۴؍ ستمبر کےاپنے بیان میں نشاندہی کی تھی کہ موسم باراں کے آغاز کے بعد ۲؍ ملین فلسطینی انسانی بحران کا سامنا کر سکتے ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ’’۷۴؍ فیصد خیمے، جن میں بے گھر فلسطینی زندگی بسر کر رہے ہیں، ناقابل رہائش ہوچکے ہیں اور ایک لاکھ ۳۵؍ ہزار خیموں میں سے ایک لاکھ خیموں کو فوری طور پر تبدیل کرنےکی ضرورت ہے۔‘‘ اطلاعات کے مطابق غزہ کے خیموں کی حالت اتنی زیادہ خراب ہوگئی ہے کہ وہ تھوڑی بارش میں بھی زیر آب ہوسکتےہیں۔ خیموںکے باہروالے علاقوں کیچڑ کے دلدل میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ فلسطینیوں ، جن کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے، کا کہنا ہے کہ اب آسمان ہی ان کیلئے واحد شیلٹر ہے۔
بچے بیمار پڑتے ہیںتو ان کیلئے ادویات نہیں ہوتیں: محمد عبداللہ کوبی
محمد عبداللہ کوبی، جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ وسطی غزہ کے نصرت پناہ گزین کیمپ میں خیمے میں زندگی بسر کرنے کیلئے اپنے اہل خانہ کے ساتھ منتقل ہوئے ہیں، نے بتایا کہ غزہ کے خیموں کی حالت کیا ہے اور وہ جگہ جہاں انہوں نے خیمے لگائے ہیں ، ناقابل رہائش ہے۔ کوبی نے واضح کیا ہے کہ ’’خیموں کے زیر آب ہونے کیلئے تھوڑی بارش بھی کافی ہے اور انہیں بارش کے دوران زندگی گزارنے کیلئے عالمی برداری سے واٹرپروف سپلائی موصول نہیں ہوئی ہے۔‘‘
Scenes from Palestine Square in downtown Gaza City reveal the aftermath of this morning`s heavy rainfall, with streets flooded and residents navigating through the waterlogged area. pic.twitter.com/YebqjGDDfb
— SilencedSirs◼️ (@SilentlySirs) September 22, 2024
انہوں نے مزید کہاکہ ’’صرف ایک گھنٹے بارش ہوئی ہے اور اس کے بعد یہ حالت ہوئی ہے۔ اگر زیادہ دنوں تک بارش ہوئی تو ہم کیا کریں گے؟ یہاں کوئی محفوظ نہیں۔ ہمارے لئے پناہ لینے کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے، نہ ہی کوئی گھر ہے اور نہ ہی کوئی دوسری جگہ۔ جب ہمارے بچے بیمار پڑتے ہیں تو ہمیں انہیں دینے کیلئے دوا بھی نہیں ہوتی۔‘‘
Afraid of drowning, displaced Palestinians in Gaza try to clear water from their tents in Mawasi after heavy prolonged rain floods the whole region pic.twitter.com/TIw3EnsXyM
— Sarah Wilkinson (@swilkinsonbc) September 23, 2024
انسانیت مر چکی ہے، ہمارے لئے کوئی کھڑا نہیں ہو رہا ہے
غزہ کے دیر البلاح میں بھی اسی طرح کے حالات ہیں۔ دیر البلاح کے ایک رہائشی احمد عبدل الطیف، جن کے خیمے کی چٹائی اور بلینکٹ بارش کی وجہ سے بھیگ گئے ہیں، نے اپنے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری مشکلات مزید بڑھ رہی ہیں اور کوئی کچھ نہیں کررہاہے۔ یوں معلوم ہو رہا ہے کہ لوگ ہماری خواتین اوربچوں کی تکلیفوں کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔‘‘
Due to the heavy rain that started this morning in Gaza, the tents sheltering displaced Palestinian families have been flooded. pic.twitter.com/LMldMbkH5Z
— Gaza Notifications (@gazanotice) September 22, 2024
ہمیں اس المیہ کو کب تک برداشت کرنا ہوگا؟
دوسرے خیمے میں فاطمہ نامی خاتون اپنے خیمے کو دوبارہ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں جبکہ ان کے شوہر خالد اپنے سامان کو سیلابی پانی سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خالد نے کہا کہ’’میری اہلیہ، جو ایک صحافی بھی ہیں،صحافت کے امور انجام دینے کے بجائے اپنے ٹوٹے ہوئے خیمے کو بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ہمیں اس المیہ کو آخر کب تک برداشت کرنا ہوگا؟ عالمی برادری اور انسانی ادارے غزہ میں جنگ ختم کرنے کیلئے اقدامات کریں۔‘‘