• Mon, 27 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

جنگ نے غزہ کی ترقی کو ۶۰؍ سال پیچھے دھکیل دیا ہے: یو این ڈی پی سربراہ

Updated: January 25, 2025, 10:05 PM IST | Jerusalem

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے ہیڈ آشیم اسٹینر نے کہا کہ ’’غزہ کی ترقی ۶۰؍ سال پیچھےچلی گئی ہے اور فلسطینی خطے کی بحالی میں دسیوں بلین ڈالر روپے خرچ ہوں گے۔‘‘

Destruction in Gaza is destruction. Inset: Ashim Steiner. Photo: INN
غزہ میں تباہی ہی تباہی ہے۔ انسیٹ : آشیم اسٹینر۔ تصویر: آئی این این

اقوام متحدہ (یو این) نے کہا ہے کہ’’اسرائیلی جنگ کے سبب غزہ کی ترقی ۶۰؍سال پیچھے چلی گئی ہے اور فلسطینی خطے کی بحالی میں دسیوں بلین ڈالر روپے خرچ ہوں گے۔‘‘اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے ہیڈ نے کہا ہے کہ’’غزہ کی تقریباً دو تہائی عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں یا انہیں نقصان پہنچا ہے اور فلسطینی خطے کےتقریباً ۴۲؍ ملین ٹن ملبے کو ہٹانا خطرناک اور مشکل ثابت ہوگا۔‘‘ 

داووس، سوئزرلینڈ میں ورلڈاکنامک فورم (ڈبیلو ایف ای) کی میٹنگ میں ہیڈ آشیم اسٹینر نے اپنے انٹرویو کے دوران کہا کہ ’’غزہ کی تقریباً ۶۵؍ تا ۷۰؍ فیصد عمارتیںمکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوچکی ہیں۔فلسطینی خطے کی معیشت بھی تباہ ہوچکی ہیں اور ۱۵؍ ماہ کی جنگ میں تقریباً ۶۰؍ سال کی ترقی ختم ہوگئی ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’غزہ پٹی میں ۲؍ملین فلسطینیوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے شیلٹرز بلکہ عوامی انفراسٹرکچر، سیویج کا نظام، صاف پانی کا سپلائی سسٹم اور عوامی ویسٹ مینجمنٹ کھو دیا ہے۔ یہ تمام چیزیں بنیادی انفراسٹرکچر ہیں اور یہ تمام خدمات فلسطینی خطے میں موجود نہیں ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’انسانی محرومی صرف ایسی چیز نہیں جسے آپ اعدادوشمار میں دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ 

غزہ کے ملبے کو ہٹانے میں کئی سال درکار ہوں گے۔ تصویر: ایکس

سال بہ سال 

حماس اور اسرائیل کے درمیان ’’جنگ بندی اور مغویوں کی رہائی‘‘ کامعاہدہ اتوار کو عمل میں آیا ہے۔ آشیم اسٹینر نے مزید کہا ہے کہ ’’جنگ بندی کی ’’غیر یقینی صورتحال‘‘ اور اقوام متحدہ (یو این) کے ’’زندگی بچانے والی امداد‘‘ پر فوری توجہ کی وجہ سے یہ بتانا مشکل ہے کہ غزہ کی بحالی میں کتنا وقت درکار ہوگا۔ یہاں بحالی صرف ایک یادو سال میں ممکن نہیں۔ غزہ کی بحالی میں سال بہ سال خرچ ہوں گے کیونکہ ہمیں صرف انفراسٹرکچر کی تعمیر نونہیں کرنی بلکہ پوری معیشت کو بحال کرنا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’جنگ سے قبل لوگوں کے پاس جمع پونچی تھی، لون تھے اور لوگوں نے تجارتوں میں سرمایہ کاری کی تھی۔ یہ سب کچھ اب ختم ہوگیا ہے۔ اسی لئے یہاں ہمیں صرف عوامی انفراسٹرکچر اور معیشت کی بحالی پر ہی توجہ مرکوز نہیں کرنی ہے بلکہ ہمیں کچھ حد تک بحالی کے’’نفسیاتی مرحلے‘‘ سے بھی گزرنا ہے۔‘‘ا نہوں نے مزید کہا کہ ’’جسمانی انفراسٹرکچر میں ’’دسیوں بلین ڈالر خرچ ہوں گے اور مالیات کے اس پیمانے کو متحرک کرنے کے بارے میں ایک مشکل جدوجہد کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔‘‘

غزہ کا ملبہ خطرناک ہے۔ تصویر: ایکس

’’غیر معمولی تباہی‘‘
انہوں نے واضح کیا کہ ’’ملبے کا حجم بڑھ سکتا ہے اور ہمیں اس کی وجہ سے بڑے چیلنجز سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔ ملبے کو گاڑی میں بھر اور کہیں اور منتقل کرنا آسان نہیں۔ یہ ملبہ خطرناک ہے۔ ملبے میں لاشیں بھی مل سکتی ہیں جو اب تک دریافت نہیں کی گئی ہیں۔ ملبےمیں ایسا مواد بھی ہوسکتا ہے جواب تک پھٹا نہ ہو۔ ہمارے پاس ایک متبادل ’’قابل استعمال بنانے‘‘ کا متبادل ہے۔ ہم ان تمام مواد کو ’’ری سائیکل‘‘ کرنے کے بعد بحال کے کاموں میں استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: امریکی کانگریس وومین رشیدہ طلیب کا اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی کا مطالبہ

انہوں نے مزید کہا کہ’’عبوری حل یہ ہوگا کہ ملبے کو عارضی ڈمپ اور ڈپازٹ میں منتقل کیا جائے جہاں سے اسے بعد میں یا تو مستقل عمل یا ٹھکانے لگانے کیلئے لے جایا جائے گا۔‘‘انہوں نے مزید کہا ہے کہ ’’اگر جنگ بندی دیرپا رہتی ہےتو بحالی کے کام کیلئےبڑی تعداد میں عارضی انفراسٹرکچر کی ضرورت ہوگی۔ ہر اسکول اورہر اسپتال مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے یا اسے شدید نقصان پہنچا ہے۔جنگ کے نتیجے میں غیر معمولی تباہی ہوئی ہے۔‘‘یاد رہے کہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں فلسطینی خطے میں ۴۷؍ ہزار سےز ائد فلسطینی جاں بحق جبکہ ایک لاکھ ۱۰؍ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK