غزہ میں رضاکارانہ طور پرطبی خدمات انجام دیکر لوٹنے والے ۴۵؍ امریکی ڈاکٹروں اور نرسوں کا جوبائیڈن کو جذباتی مکتوب، فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔کہا کہ ’’کاش آپ وہ ڈراؤنےخواب دیکھ سکیں جو ہمیں واپس آنے کے بعد پریشان کر رہےہیں...ہمارےہتھیاروں سے بچوں کو قتل کیا جارہاہے۔‘‘
غزہ جنگ میں بچے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اکثر بچوں کو جان بوجھ کر سر یا سینے پر گولی مارنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ تصویر : آئی این این
غزہ میں رضاکارانہ طور پر طبی خدمات انجام دینے کےبعد امریکہ لوٹنے والے ۴۵؍ ڈاکٹروں اور نرسوں نے امریکی صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کو ایک کھلا خط لکھ کر اسرائیلی مظالم سے آگاہ کرتے ہوئےکہا ہے کہ ’’ہم نے جو دیکھا ہے اس کےبعد خاموش نہیں رہ سکتے۔ ‘‘سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈاکٹروں کی اس ٹیم نے امریکہ کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہےکہ اس کےفراہم کردہ اسلحہ سے اسرائیل کھلے عام بچوں کو قتل کررہاہے۔ ڈاکٹرس نے اپیل کی ہے کہ تل ابیب کو اسلحہ کی سپلائی فوری طورپر روکی جائے اور غزہ میں جنگ بندی نافذ کی جائے۔
’’ بچوں کو سراور سینے پر گولیاں ماری گئیں ‘‘
مکتوب پر دستخط کرنے والے ڈاکٹرس نے ایک زبان ہوکر کہا ہے کہ انہوں نے غزہ میں زخمی ہونے والے بچوں کا علاج کیا ہے اوران کےجسموں پر جس طرح کے زخم تھے وہ جان بوجھ کر پہنچائے گئے تھے۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ ’’ہم میں سے ہر ایک نے (غزہ میں ) ہر روز ۱۲؍ سال سے بھی کم عمر کے ایسے چھوٹے چھوٹے بچوں کا علاج کیا ہےجنہیں سینے اور سر پر گولیاں ماری گئی تھیں۔ ‘‘ امریکی صدر اور نائب صدر کو مخاطب کرتےہوئے لکھے گئے مکتوب میں ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ ’’کاش آپ بھی وہ ڈراؤنے خواب دیکھیں جو ہمیں واپسی کے بعد مسلسل پریشان کر رہے ہیں، یہ ان بچوں کے خواب ہیں جن کے جسموں کو ہمارے ہتھیاروں سے لہولہان کردیا، اعضاء کٹ گئے اوران کی بے قرار مائیں رو رو کر ہم سے ان بچوں کی جان بچالینے کی اپیلیں کرتی تھیں۔ ‘‘
’’ آپ بھی وہ چیخیں سنیں جو ضمیر کو جھنجھوڑ دیتی ہیں ‘‘
ڈاکٹروں نے فلسطینی عوام اور وہاں کے بچوں کی اموات پر امریکی حکام کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کی کوشش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی وہ چیخیں اور وہ آہ و بکا سنیں جنہیں ہماراضمیر کبھی بھلا نہیں پائےگا۔ ‘‘جن ڈاکٹروں اور نرسوں کی ٹیم نے وہائٹ ہاؤس کیلئے مکتوب جاری کیا ہے وہ اس سے پہلے یوکرین اور عراق میں بھی جنگ کے دوران طبی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ غزہ کے حالات کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ملک کی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ غزہ پر اسرائیلی حملوں کی وجہ سے انسانیت کو پہنچنے والے نقصان کو ہم بہتر انداز میں بیان کرسکتے ہیں۔ بطور خاص اس نے خواتین اور بچوں پر جو اثر ڈالا ہے، اس کو ہم احسن طریقے سے دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔ ‘‘
اسرائیل کواسلحہ کی فروخت پر پابندی کا مطالبہ
امریکی ڈاکٹرس کی طرف سے یہ مکتوب ڈاکٹر فیروزہ سدوا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر پوسٹ کیا ہے۔ ان ہی تحریک پر غزہ سے واپسی پر ڈاکٹرس اور نرسوں کی ٹیم نے یہ مکتوب لکھنے کافیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے جو بائیڈن اسرائیلی حکومت اور فلسطینی جنگجو تنظیموں کو اسلحہ فروخت کرنے پر فوری پابندی کا مطالبہ کیا ہے اور اپیل کی ہے کہ تل ابیب کی فوجی، سفارتی اور معاشی مدد اس وقت تک کیلئے روک دی جائے جب تک غزہ میں مستقل جنگ بندی نافذ نہیں ہوجاتی۔ سی این این کے مطابق ا س نے اس مکتوب پر وہائٹ ہاؤس کا ردعمل جاننے کی کوشش کی ہے مگر خبر کے لکھے جانے تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔
امریکہ کےمعالج ڈاکٹرآدم ہام وے جو پلاسٹک سرجن ہیں اور جو امریکی فوج میں طبی خدمات انجام دے چکے ہیں، نے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’’میدان ِ جنگ میں جو کچھ ہورہا ہوتا ہے اس کے اول چشم دید ہم ڈاکٹرس ہوتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم اس کے بارے میں بتائیں ...ہم اس کے شاہد ہیں۔ ‘‘
غزہ کے حالات بیان کرتے ہوئے انہوں نےبتایا کہ’’غزہ میں کوئی ایسا نہیں ہے جوحالات پرآزادانہ اور غیر جانبدارانہ طور پر نظر رکھ رہا ہو۔ ‘‘ ڈاکٹر آدم نے کہا کہ ’’اگر آپ کو فلسطینی عوام کی بات پر یقین نہیں آتا تو ہم ۵۰؍ ڈاکٹروں کی بات کا اعتبار کیجئے جو الگ الگ وقت میں وہاں گئے ہیں اورخدمات انجام دی ہیں۔ ‘‘ اس سوال پر کہ آپ نے غزہ میں کیا دیکھا، انہوں نے بتایا کہ’’ہم نے مکمل تباہی دیکھی ہے۔ پوری کی پوری بستی، زندگیاں اور طبی انفرااسٹرکچر تباہ کیا جارہاہے۔ ‘‘