• Wed, 27 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

جرمنی: ۲۱؍ فیصد شہری قومی فٹبال ٹیم میں سفید فام کھلاڑیوں کو دیکھنا چاہتے ہیں

Updated: June 08, 2024, 10:03 PM IST | Berlin

اے آر ڈی کے حالیہ سروے میں واضح ہوا ہے کہ جرمنی کے ۲۱؍ فیصد افراد قومی فٹ بال ٹیم میں سفید فام کھلاڑیوں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسپورٹس ماہرین کا کہنا ہے کہ جرمنی اسپورٹس کے تمام اہم عہدوں پر سفید فام ہیں۔ سیاہ فاموں کو جان بوجھ کر اہم عہدے نہیں دیئے جاتے۔ واضح رہے کہ جرمنی کی قومی فٹ بال ٹیم کے کپتان ترک نژاد ہیں۔

Germany national football team. Photo: Facebook
جرمنی کی قومی فٹ بال ٹیم۔ تصویر: فیس بک

جرمن فٹ بال اور نسل پرستی کے بارے میں ایک نئے سروے نے یورو ۲۰۲۴ء چیمپئن شپ سے قبل ملک بھر میں بحث کا آغاز کردیا ہے۔ اے آر ڈی کے ایک سروے میں ۲۱؍ فیصد جرمن شہریوں نے کہا ہے کہ وہ قومی فٹ بال ٹیم میں سفید فام والے زیادہ کھلاڑیوں کو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ تقریباً ۱۷؍ فیصد نے کہا کہ انہیں اس بات پر افسوس ہے کہ قومی ٹیم کے موجودہ کپتان ترکی نژاد ہیں۔ 
جرمن فٹ بال کے معروف ماہر، رونی بلاشکے نے کہا کہ سروے کا نتیجہ حیران کن نہیں ہے کیونکہ فٹ بال میں نسل پرستی ایک طویل عرصے سے سنگین مسئلہ رہا ہے، اور مہاجر مخالف انتہائی دائیں بازو کی اے ایف ڈی پارٹی کے عروج سے اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ انہوںنے کہا کہ ’’یہ نتیجہ واقعی میں مجھے حیران نہیں کرتا کیونکہ میں نے تقریباً ۲۰؍ سال تک تحقیق کی، اور ہمارے پاس کئی دہائیوں سے فٹ بال میں کھلے عام نسل پرستی ہورہی ہے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہمارے پاس ۸۰؍ اور ۹۰؍ کی دہائی میں جب کھلاڑیوں پر حملے کئے گئے تھے، اس وقت وحشیانہ نسل پرستی تھی، اور ہمارے اسٹینڈز میں نازی پرستار موجود تھے اس لئے نسل پرستی جرمن فٹ بال کی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔‘‘ بلاشکے نے نوٹ کیا کہ حالیہ برسوں میں جرمن فٹ بال فیڈریشن اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے مختلف مہمات کے باوجود، شائقین کے درمیان نسل پرستی اور اسٹیڈیم میں نسل پرستی کے واقعات ختم نہیں ہوئے ہیں۔
فٹ بال ایپ فین کیو کے ایک سروے کے مطابق حالیہ برسوں میں جرمنی میں بہت سے شوقیہ اور پیشہ ور کھلاڑیوں کیلئے نسل پرستی روزمرہ کی حقیقت بن گئی ہے۔تقریباً ۲؍ ہزار جواب دہندگان میں سے نصف سے زائد نے کہا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ شوقیہ (۵۱؍ فیصد) اور پیشہ ور فٹ بال (۵۸؍ فیصد) دونوں میں نسل پرستی بہت زیادہ موجود ہے۔ فٹ بال کے ماہر رونی بلاشکے نے کہا کہ سیاہ فام فٹ بالرز کے خلاف نسل پرستانہ توہین صرف ایک سرا ہے اور تارکین وطن کے خلاف نسل پرستانہ دقیانوسی تصورات اس سے کہیں زیادہ پھیلے ہوئے ہیں جو دیکھا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’میں نے بہت سے سیاہ فام یا ترک نوجوان فٹ بال کھلاڑیوں سے سنا ہے کہ انہیں ایتھلیٹ کے طور پر دیکھا گیا، (انہیں کہا گیا) کہ آپ فٹبال کیلئے جا سکتے ہیں، اگر آپ کا امتحان اسکول میں نہیں ہوتا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن کیوں؟ ان لوگوں کو (مستقبل کے) ڈائریکٹرز، یا وکلاء، یا کامیاب مینیجر کے طور پر نہیں دیکھا جاتا؟ جرمن فٹ بال فیڈریشن یا جرمن فٹ بال لیگ کا بورڈ تقریباً سفید فام کیوں ہے؟ کیونکہ فیصلہ ساز، وہ ایسے لوگوں کو بھرتی کر رہے ہیں جو ان سے ملتے جلتے ہیں۔‘‘ 
انہوں نے کہا کہ ’’ہماری ٹیم میں فی الحال ترکی نژاد ٹیم کپتان ہے لیکن کوئی سیاہ فام کوچ، ریفری، منیجر یا اسپورٹس جرنلسٹ نہیں ہے۔ اہم عہدے سفید فاموں کیلئے ہیں۔ یہ ایک اور ساختی مسئلہ ہے۔‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK