Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

حافظ عبدالمومن ۱۹۸۱ء سے بلاناغہ تراویح پڑھا رہے ہیں

Updated: March 03, 2025, 4:12 PM IST | Saeed Ahmad Khan | Mumbai

تکمیل حفظ کے بعد پہلی تراویح حیدرآباد میں پڑھائی،اس کےبعد بہرائچ اورعروس البلاد کے الگ الگ مقامات پریہ سلسلہ ۴۴؍ سال سے مسلسل جاری ہے۔

Hafiz Abdul Momin Noori had completed memorization at the age of 17. Photo: INN
حافظ عبدالمومن نوری نے۱۷؍سال کی عمر میں حفظ مکمل کرلیا تھا۔ تصویر: آئی این این

تراویح پڑھانے والے حفاظ کی فہرست میں حافظ عبدالمومن نوری ایسے حافظ قرآن ہیں جوتکمیل ِ حفظ کے بعدسے آج تک بلا ناغہ قرآن کریم سنارہے ہیں۔ وہ اب تک ۴۴؍ محرابیں سناچکے ہیں ۔ ۱۷؍ سال کی عمر میں مشہور دینی درسگاہ نورالعلوم بہرائچ (یوپی) سے حافظ ہونے کے بعد حضرت مولاناشاہ ابرارالحقؒ کے انتخاب پرپہلی تراویح بیت العلوم حیدرآباد کی مسجد میں پڑھائی، یہاں ۱۱؍سال تک یہ سلسلہ قائم رہا۔ یہ ادارہ حضرت ہردوئیؒ کی نگرانی میں چلتا تھا۔ اسی طرح بہرائچ میں ۶؍ برس پڑھایا۔ قاری صادق صاحب نے ممبئی بلالیا۔ ممبئی آنے کے بعد ۲ ؍ سال مسجد معراج (چیتاکیمپ )میں اور ۴؍ سال کرلا کی مسجد میں پڑھایا۔ اس کےبعد ۲۰۰۱ءسے ممبرا چاندنگر کمپلیکس میں پڑھا رہے ہیں۔ ۱۹۸۱ء سے شروع ہونے والایہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ حالانکہ امسال انہوں نے صحت کا حوالہ دیتےہوئے منتظمین سےمعذرت کی تھی کہ اب ہمت نہیں ہوتی مگر مصلیان اور ذمہ داران کے اصرار کے بعد پڑھا رہے ہیں، خدا کرے یہ سلسلہ آئندہ بھی باقی رہے۔ عموماً ۱۰؍ دنوں میں قرآن مکمل کرنے کا معمول رہا ہے۔ اس کی وجہ انہوں نے مدرسے کیلئے مالی فراہمی کی مصروفیات بتائی۔ 
 حافظ عبدالمومن نے مذکورہ اہتمام اوراپنی کامیابی کے تعلق سے اپنے مشفق ومربی استاذ  محترم قاری عبداللطیف کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت قاری صاحب کوقرآن کریم سے حد درجہ شغف ہے، ۸۶؍ سال سے زائدعمر ہو جانےکے باوجو دآج بھی وہ پورے اہتمام سے نورالعلوم میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، پابندی کے ساتھ قبل ازوقت مدرسہ پہنچتے ہیں۔ قاری عبداللطیف کے والد مرحوم جن کانام کچھ اور تھا مگر ’بھگّل ‘ نام سے علاقے میں مشہور تھے، جید حافظ قرآن تھے۔ وہ کھیتی باڑی کا کام کرتے ہوئے کئی کئی پارے کی تلاوت کرتے تھے۔ اُن کا ایک واقعہ حافظ عبدالمومن نے سنایا کیا کہ ’’ ایک دن ہمارے استاد کےوالد آگئے۔ انہوں نے ہم لوگوں کو سورۂ ملک سنانے کیلئے کہا۔ ہم نے حفظ تو مکمل کرلیا تھا مگرزیادہ پختہ نہیں ہوا تھا اس لئے مشابہت لگ گئی۔ اس پرقاری صاحب کوان کے والدنے بہت ڈانٹا اورکہا کہ کیا پڑھاتے ہو، کیسے پڑھاتے ہو، بچوں کو یاد نہیں ہے۔ والد کی تنبیہ قاری صاحب گردن جھکائے سنتے رہے۔ ‘‘
 حافظ عبدالمومن کے مطابق ’’جو طلبہ سبق اور آموختہ اچھا سناتے تھے، قاری عبداللطیف صاحب ان سے خاص شفقت اورمحبت کا برتاؤ کرتے تھے، انہیں ناشتہ کراتے اورگھرلے جاکر کھانا کھلاتے۔ قرآ ن کریم یاد رکھنےکے لئے تہجد میں، اوابین میں اورسنن ونوافل میں کثرت سے تلاوت کرنے کی طلبہ کو تلقین کرتے تھے۔ ‘‘
 حافظ عبدالمومن ۲۵؍برس سے جامعہ معراج العلوم چیتا کیمپ کےشعبۂ حفظ میں  تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ ان کے شاگردوں کی بھی بڑی تعداد ہے جوملک وبیرون ملک دینی خدمات انجا م دے رہے ہیں۔ انہوں نے نئے حفاظ کومشورہ دیا کہ وہ کہیں بھی رہیں، روزی روٹی کے لئے کوئی بھی شعبہ منتخب کریں مگریہ یاد رکھیں کہ اللہ پاک نے انہیں اپنے کلام کی حفاظت کرنے والوں کی فہرست میں شامل فرمایا ہے۔ اس سعادتِ عظمیٰ کا تقاضہ ہے کہ تلاوت میں کبھی غفلت نہ ہو۔ کسی بھی صورت ۲؍پارے سے کم کی تلاو ت تو ہونی ہی نہیں چاہئے، اگرکمی آگئی تو یہ ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ قرآن کریم سینوں میں محفوظ رہے گا۔ انہوں  نے کہا کہ ’’میں اپنے شاگردوں کو روزانہ یہ نصیحت کرتا ہوں۔ ‘‘
 گفتگو کے اخیر میں اِس سوال پر کیا آپ کے صاحبزادگان میں کوئی حافظ قرآن ہے، انہوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئےکہا، نہیں، ایک بیٹے نے ۱۱؍پارے حفظ کئے تھے وہ عصری علوم بھی حاصل کررہا تھا۔ میں نے بہت کوشش کی، متعدد مدرسے میں داخلہ دلوایا مگر شاید قدرت کو کچھ اور منظور تھا، بیٹا حافظ نہ بن سکا، مجھے آج بھی اس کا بے حد قلق ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK