معروف دینی ادارہ مدرسہ عربیہ ریاض العلوم کا یہ طالب علم والد کے انتقال پر دو پیریڈ غیر حاضر رہا تو اس نے جس احساس ذمہ داری کے ساتھ ناظم مدرسہ کو خط لکھا وہ قابل ستائش ہے۔
EPAPER
Updated: January 15, 2025, 10:32 AM IST | Saeed Ahmad Khan | Mumbai
معروف دینی ادارہ مدرسہ عربیہ ریاض العلوم کا یہ طالب علم والد کے انتقال پر دو پیریڈ غیر حاضر رہا تو اس نے جس احساس ذمہ داری کے ساتھ ناظم مدرسہ کو خط لکھا وہ قابل ستائش ہے۔
مشہور دینی درسگاہ مدرسہ ریاض العلوم گورینی جونپور(یوپی) کے عربی اول کے طالب علم حافظ محمد عمار بن محمد اعظم نے درس میں حاضری کی ایسی مثال قائم کی کہ خوش گوار حیرت کے ساتھ چہار جانب سےاس کی ستائش کی جارہی ہے۔ اس طالب علم نے گزشتہ شوال سے اب تک (تقریباً۲ سال کے عرصے میں ) ایک بھی گھنٹہ(سبق) ناغہ نہیں کیا۔ گزشتہ دنوں والد کے انتقال پر محض دو اسباق میں غیر حاضری کا اسے اتنا احساس ہوا کہ اس نے ادارہ کے سربراہ کو درخواست دی اور معذرت کااظہار کیا۔ اس کے جواب میں ناظم ِمدرسہ مولانا عبدالرحیم مظاہری نے اپنے نوٹ کے ساتھ اس ہونہار طالب علم کی ستائش کی اور اسے مثالی وقابل تقلید کارنامہ قرار دیا۔ نمائندۂ انقلاب نےمحمد عمار اورادارہ کے سربراہ دونوں سے بات چیت کی اور یہ معلوم کیا کہ حصولِ علم کے تئیں اس قدر اہتمام اور انہماک کس طرح حاصل ہوا اور کس نے ترغیب دلائی۔
طالب علم حافظ محمدعمار نے انقلاب کو بتایاکہ ’’والد محترم جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں، بہت زور دیتے تھے اور بار بار توجہ دلاتے تھے کہ دلجمعی اور محنت سے پڑھو، مدرسہ کا کسی صورت ناغہ نہیں ہونا چاہئے، تبھی کامیابی ملے گی۔ ‘‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ’’ والد صاحب کی سختی اور توجہ دلانے کے ساتھ مدرسہ کےناظم اکثر وبیشترتمام طلبہ کوہدایت دیتے ہیں اوراس جانب بطور خاص توجہ دلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ حاضر باش طلبہ کی حوصلہ افزائی کےلئے اہم کتابیں انعام میں دی جاتی ہیں۔ یہی وہ محرکات ہیں جن سے مجھے ترغیب ملی۔ ‘‘ انہوں نے اپنے رفقائے درس کےتعلق سےکہاکہ ’’مدرسہ میں داخلہ لیتے ہی مقصد ہم سب کے پیش نظر ہوتا ہے۔ اس لئے پابندی سے اسباق سنانے اورکسی بھی قیمت پردرس میں شریک رہنے کی دھن سوار رہے، یہی کامیابی کی کلید ہے۔ ‘‘
اس طالب علم نے ادارۂ ہٰذا کے سربراہ کودی گئی درخواست میں لکھا ’’ الحمدللہ، شوال سے اب تک میری کسی گھنٹی (سبق) میں غیر حاضری نہیں ہوئی ہے۔
’’ ۵؍جنوری ۲۰۲۵ءکومیرے والد کا اچانک انتقال ہوگیا۔ اس لئے شام کی دونوں گھنٹی میں میری غیر حاضری ہوگئی۔ آپ سے درخواست ہے کہ احقر کی اضطراری کیفیت میں ہونے والی غیر حاضری کومعاف فرماکر حسبِ سابق مسلسل حاضر باش طلبہ کی صف میں مجھے شامل رکھا جائے۔ ‘‘ اس درخواست پرادارے کے ناظم مولانا عبدالرحیم مظاہری نے مع دستخط اپنا نوٹ لکھا ’’ آپ کی درخواست دیکھ کربہت ہی حیرت ہوئی۔ ایسی مثالیں تاریخ میں پہلی اور دوسری صدی میں ملتی ہیں، اب پندرہویں صدی میں ایسے لوگ پیدا ہوں، بہت ہی تعجب کی بات ہے۔ اللہ رب العزت آپ کوعالم باعمل بنائے اورآپ کے والد مرحوم کی مغفرت فرماکر انہیں جنت الفردوس میں داخل فرمائے۔ آپ کی غیرحاضری کوحاضری میں ہی شمار کیاجائے گا۔ اس لئے کہ آپ دل ودماغ سےحاضر ہی تھے۔ ‘‘
مذکورہ ادارے کے سربراہ مولانا عبدالرحیم مظاہری نے اس ضمن میں انقلاب کو بتایاکہ ’’ وقفے وقفے سے طلبہ اوراساتذہ کوان کی ذمہ داری اور مدرسہ آمد کا مقصد یاد دلایاجاتا ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہےکہ محنت، یکسوئی اوردلجمعی سے ہی حصولِ علم اور کامیابی ممکن ہے اور ان ہی خوبیوں کے ذریعے ہم اپنافرض منصبی ادا کرسکیں گے۔ ‘‘ انہوں نے یہ بھی بتایاکہ ’’ادارہ میں انجمن تہذیب اللسان کا تقریباً۴۰؍ برس قبل قیام عمل میں آیا تھا، جو طلبہ بلاناغہ حاضر رہتے ہیں، ۸؍ سال قبل سے ان کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ اسباق میں بلاناغہ حاضر رہنے والے طلبہ کو۳؍ہزار روپے کی کتابیں انعام میں دی جاتی ہیں، یہ سلسلہ ۷؍ سال قبل سے جاری ہے۔ گزشتہ سال اس صف میں انعام حاصل کرنے والے۳۰؍ طلبہ تھے۔ ‘‘ مولانا نے مزید بتایاکہ’’ میں دیگراداروں کے ذمہ داران کوبھی اس جانب متوجہ کرتا رہتا ہوں کہ وہ اس سلسلہ کو درازکریں اس سےمثبت تبدیلی کے ساتھ طلبہ میں مزید انہماک پیدا ہوگا اور وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے کوشاں رہیں گے۔ ‘‘