Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

حافظ محمد متین خان مصباحی ماریشس میں۲۱؍سال سے تراویح پڑھا رہے ہیں

Updated: March 12, 2025, 11:16 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

عروس البلاد اور دیگر شہروں میں تراویح کی ان کی امامت کا مجموعی دورانیہ ۳۰؍سال ہے۔

Maulana Muhammad Mateen Khan Misbahi in Mauritius.
مولانا محمدمتین خان مصباحی ماریشس میں۔

مولانا حافظ محمدمتین خا ن مصباحی ۲۱؍ سال سے ماریشس میں تراویح پڑھا رہے ہیں۔ وہ فی الوقت ماریشس کے سبستے علاقے کی مسجد نور میں ۸؍ ویں محراب سنا رہے ہیں۔ ان کے ماریشس پہنچنے کا واقعہ دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی۔ ماریشس میں وہ ۲۰۰۴ء سے تراویح پڑھا رہے ہیں۔
 انہوں نے ۲۰۰۹  میں معروف دینی ادارہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ سے فراغت حاصل اور حفظ مدرسہ اشرف العلوم پورا گوہر (سلطان پور) میں قاری نظام الدین کے پاس مکمل کیا۔ اس کے بعدجامعہ قادریہ اشرفیہ (دوٹانکی) آئے اور یہاں (مرحوم) قاری محمد اسلام (سابق خطیب وامام حاجی علی درگاہ والی مسجد )کے پاس دَور کیا۔
 سلطان پور (یوپی) سے تعلق رکھنے والے۴۵؍ سالہ مولانا متین ‌خان ۱۹۹۵ء سے ۱۵؍سال کی عمر سے تراویح پڑھا رہے ہیں۔ سنی دارالعلوم محمدیہ باؤلا مسجد (مینارہ مسجد) میں شعبۂ حفظ میں تدریسی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔
  ماریشس میں، امام احمد رضا مسجد میں ۸؍ سال، اہل صفہ مسجد میں ۲؍ سال،  ماریشس کے کروماندیل علاقے کی النور مسجد میں ایک سال پڑھایا۔ سنی نوری مسجد کرلا، بھارت نگر، گوا اور مانخورد کی مساجد میں بھی تراویح پڑھا چکے ہیں۔ اس طرح تراویح کی امامت کا مجموعی دورانیہ۳۰؍ سال ہے۔
 حافظ متین کے ماریشس میں تراویح پڑھانے کا سلسلہ دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی اور اس میں ان کے بڑے بھائی محمد سلیم خان (مرحوم، مدفن جنت البقیع) کا اہم رول ہے۔ دراصل مسجد نبویؐ میں محمد سلیم کی ملاقات ماریشس کے رہنے والے محمد مسلم سے ہوئی۔ پہلے سے کوئی شناسائی نہیں تھی۔ اس کے باوجود مسجد نبوی ؐمیں ملاقا ت پرانہوں نے محمدمسلم کا اکرام کیا اور ان کی ضیافت کی، جیسا کہ عموماً لوگ اکرامِ مسلم کے طور پر حرم شریف اور مسجد نبوی میں پیش آتے ہیں۔ اس سے محمد مسلم بہت متأثر ہوئے اور ماریشس آنے کی دعوت دی اور اپنا فون‌نمبربھی دیا۔ اس پر سلیم خان نے کہا کہ میں کہاں آؤں گا ، میرے بھائی ہیں، وہ عالم حافظ ہیں، وہ جاسکتے ہیں، بس یہی بنیاد بنی میرے ماریشس میں تراویح کیلئے سفر کرنے کی۔حافظ متین خان ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۳ء تک پرمٹ پر ماریشس میں مع اہل وعیال مقیم رہ کر امامت کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ 
 اسی طرح حافظ متین‌خان نے دوسرا مزید سبق آموز واقعہ یہ بتایا کہ۲۰۰۴ء میں پہلی مرتبہ تراویح پڑھانے کے دوران ایک دن‌ایسا ہوا کہ محمد مسلم مجھے ماریشس میں اپنی گاڑی سےشہر گھمانے کے لئے نکلے، اتفاق سے وہ گانا لگائے ہوئے تھے، کچھ دیر بعد میں نے گانا بجانا بند کرنے کو کہا مگر انہوں ‌نے توجہ نہیں دی، میں نے پھر ٹوکا تب بھی سنی ان سنی کردی تو مجھے بہت غصّہ آیا اور چلاتے ہوئے میں نے گاڑی میں لگے ٹیپ پر زور سے مارا جس سے ٹیپ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ اس پر ماریشین محمد مسلم کو بہت غصّہ آیا اور وہ برہم ہو گئے کہ آپ نے یہ کیا کیا۔
  بات یہیں ختم نہیں ہوئی ۔ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’انڈین بہت ڈینجرس ہوتے ہیں، انہیں اب کبھی نہیں بلاؤں گا۔ اس کے بعد وہ ایک مقامی مفتی صاحب کے پاس گئے اور پورا واقعہ سنانے کے ساتھ وہی سب کچھ دہرایا کہ اب ہندوستانیوں کو نہیں بلانا ہے تو مفتی صاحب نے کہاکہ آخر کیا ہوا تھا، چنانچہ انہوں نے تفصیلات بتائیں تو مفتی صاحب نے جواب دیا کہ اس شخص نے تمہیں جہنم سے بچالیا‌ ۔ یہ سننا تھا کہ محمد مسلم کا رویہ تبدیل ہوگیا اور ان پرایسا اثر ہو کہ انہوں نے یہ تہیہ کرلیا کہ اب میں جب تک زندہ رہوں گا، آپ کو ضرور بلاؤں گا۔ چنانچہ آمد ورفت کاخرچ ، قیام وطعام کا انتظام، تحائف اور کاغذی کارروائی سب کچھ وہی کرتے ہیں۔ رمضان سے قبل انویٹیشن لیٹر بھیجتے ہیں جس پر ویزا جاری کیا جاتا ہے۔
  ماریشس میں لوگ علماء اور حفاظ کی بڑی قدر کرتے ہیں اور تراویح میں تیزی سے نہیں بلکہ اطمینان سے حدر تلاوت زیادہ پسند کرتے ہیں۔عموماً ۲۷؍ویں شب میںقرآن کریم مکمل کرنے کمولانا حافظ محمدمتین خا ن مصباحی ۲۱؍ سال سے ماریشس میں تراویح پڑھا رہے ہیں۔ وہ فی الوقت ماریشس کے سبستے علاقے کی مسجد نور میں ۸؍ ویں محراب سنا رہے ہیں۔ ان کے ماریشس پہنچنے کا واقعہ دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی۔ ماریشس میں وہ ۲۰۰۴ء سے تراویح پڑھا رہے ہیں۔
 انہوں نے ۲۰۰۹  میں معروف دینی ادارہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ سے فراغت حاصل اور حفظ مدرسہ اشرف العلوم پورا گوہر (سلطان پور) میں قاری نظام الدین کے پاس مکمل کیا۔ اس کے بعدجامعہ قادریہ اشرفیہ (دوٹانکی) آئے اور یہاں (مرحوم) قاری محمد اسلام (سابق خطیب وامام حاجی علی درگاہ والی مسجد )کے پاس دَور کیا۔
 سلطان پور (یوپی) سے تعلق رکھنے والے۴۵؍ سالہ مولانا متین ‌خان ۱۹۹۵ء سے ۱۵؍سال کی عمر سے تراویح پڑھا رہے ہیں۔ سنی دارالعلوم محمدیہ باؤلا مسجد (مینارہ مسجد) میں شعبۂ حفظ میں تدریسی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔
  ماریشس میں، امام احمد رضا مسجد میں ۸؍ سال، اہل صفہ مسجد میں ۲؍ سال،  ماریشس کے کروماندیل علاقے کی النور مسجد میں ایک سال پڑھایا۔ سنی نوری مسجد کرلا، بھارت نگر، گوا اور مانخورد کی مساجد میں بھی تراویح پڑھا چکے ہیں۔ اس طرح تراویح کی امامت کا مجموعی دورانیہ۳۰؍ سال ہے۔
 حافظ متین کے ماریشس میں تراویح پڑھانے کا سلسلہ دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی اور اس میں ان کے بڑے بھائی محمد سلیم خان (مرحوم، مدفن جنت البقیع) کا اہم رول ہے۔ دراصل مسجد نبویؐ میں محمد سلیم کی ملاقات ماریشس کے رہنے والے محمد مسلم سے ہوئی۔ پہلے سے کوئی شناسائی نہیں تھی۔ اس کے باوجود مسجد نبوی ؐمیں ملاقا ت پرانہوں نے محمدمسلم کا اکرام کیا اور ان کی ضیافت کی، جیسا کہ عموماً لوگ اکرامِ مسلم کے طور پر حرم شریف اور مسجد نبوی میں پیش آتے ہیں۔ اس سے محمد مسلم بہت متأثر ہوئے اور ماریشس آنے کی دعوت دی اور اپنا فون‌نمبربھی دیا۔ اس پر سلیم خان نے کہا کہ میں کہاں آؤں گا ، میرے بھائی ہیں، وہ عالم حافظ ہیں، وہ جاسکتے ہیں، بس یہی بنیاد بنی میرے ماریشس میں تراویح کیلئے سفر کرنے کی۔حافظ متین خان ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۳ء تک پرمٹ پر ماریشس میں مع اہل وعیال مقیم رہ کر امامت کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ 
 اسی طرح حافظ متین‌خان نے دوسرا مزید سبق آموز واقعہ یہ بتایا کہ۲۰۰۴ء میں پہلی مرتبہ تراویح پڑھانے کے دوران ایک دن‌ایسا ہوا کہ محمد مسلم مجھے ماریشس میں اپنی گاڑی سےشہر گھمانے کے لئے نکلے، اتفاق سے وہ گانا لگائے ہوئے تھے، کچھ دیر بعد میں نے گانا بجانا بند کرنے کو کہا مگر انہوں ‌نے توجہ نہیں دی، میں نے پھر ٹوکا تب بھی سنی ان سنی کردی تو مجھے بہت غصّہ آیا اور چلاتے ہوئے میں نے گاڑی میں لگے ٹیپ پر زور سے مارا جس سے ٹیپ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ اس پر ماریشین محمد مسلم کو بہت غصّہ آیا اور وہ برہم ہو گئے کہ آپ نے یہ کیا کیا۔
  بات یہیں ختم نہیں ہوئی ۔ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’انڈین بہت ڈینجرس ہوتے ہیں، انہیں اب کبھی نہیں بلاؤں گا۔ اس کے بعد وہ ایک مقامی مفتی صاحب کے پاس گئے اور پورا واقعہ سنانے کے ساتھ وہی سب کچھ دہرایا کہ اب ہندوستانیوں کو نہیں بلانا ہے تو مفتی صاحب نے کہاکہ آخر کیا ہوا تھا، چنانچہ انہوں نے تفصیلات بتائیں تو مفتی صاحب نے جواب دیا کہ اس شخص نے تمہیں جہنم سے بچالیا‌ ۔ یہ سننا تھا کہ محمد مسلم کا رویہ تبدیل ہوگیا اور ان پرایسا اثر ہو کہ انہوں نے یہ تہیہ کرلیا کہ اب میں جب تک زندہ رہوں گا، آپ کو ضرور بلاؤں گا۔ چنانچہ آمد ورفت کاخرچ ، قیام وطعام کا انتظام، تحائف اور کاغذی کارروائی سب کچھ وہی کرتے ہیں۔ رمضان سے قبل انویٹیشن لیٹر بھیجتے ہیں جس پر ویزا جاری کیا جاتا ہے۔
  ماریشس میں لوگ علماء اور حفاظ کی بڑی قدر کرتے ہیں اور تراویح میں تیزی سے نہیں بلکہ اطمینان سے حدر تلاوت زیادہ پسند کرتے ہیں۔عموماً ۲۷؍ویں شب میںقرآن کریم مکمل کرنے کارواج ہے ۔
 ‌حافظ متین خان کے مطابق مسجد انتظامیہ کمیٹی کے اراکین بشاشت سے مجھے رمضان المبارک میں سفر کی اجازت دیتے ہیں، اس سے کافی سہولت ہوتی ہے اور اس طرح ماریشس پہنچ کر تراویح پڑھانے کا بآسانی موقع مل رہا ہے‌۔
 حافظ متین کا تعلق دینی گھرانے سے ہے۔ ان کے تین بیٹے ہیں۔ بڑا بیٹا مہاراشٹر کالج میں پڑھنے کے ساتھ حفظ کررہا ہے، دوسرا بیٹا نویں میں ہے اور وہ بھی حفظ کررہا ہےجبکہ تیسرا بیٹا چھوٹا ہے، وہ بھی زیر تعلیم ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ماموں زاد بھائیوں اور بہنوئیوں میں مولانا ابرار احمد سیوڑی کی مدینہ مسجد میں امام ہیں اور حافظ شہزاد (مرحوم )بھی سیوڑی کی ربانی مسجد میں امام تھے۔سنّی نورانی مسجد عمر واڑی (کرلا) میں مولانا حافظ محمد متین خان مصباحی کی غیر حاضری کے دوران قاری وسیم ۷؍برس سے امامت اورتراویح کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں۔
ارواج ہے ۔
 ‌حافظ متین خان کے مطابق مسجد انتظامیہ کمیٹی کے اراکین بشاشت سے مجھے رمضان المبارک میں سفر کی اجازت دیتے ہیں، اس سے کافی سہولت ہوتی ہے اور اس طرح ماریشس پہنچ کر تراویح پڑھانے کا بآسانی موقع مل رہا ہے‌۔
 حافظ متین کا تعلق دینی گھرانے سے ہے۔ ان کے تین بیٹے ہیں۔ بڑا بیٹا مہاراشٹر کالج میں پڑھنے کے ساتھ حفظ کررہا ہے، دوسرا بیٹا نویں میں ہے اور وہ بھی حفظ کررہا ہےجبکہ تیسرا بیٹا چھوٹا ہے، وہ بھی زیر تعلیم ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ماموں زاد بھائیوں اور بہنوئیوں میں مولانا ابرار احمد سیوڑی کی مدینہ مسجد میں امام ہیں اور حافظ شہزاد (مرحوم )بھی سیوڑی کی ربانی مسجد میں امام تھے۔سنّی نورانی مسجد عمر واڑی (کرلا) میں مولانا حافظ محمد متین خان مصباحی کی غیر حاضری کے دوران قاری وسیم ۷؍برس سے امامت اورتراویح کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK