Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

حافظ بھی، طالب علم بھی، اسپورٹس مین بھی اور امام تراویح بھی

Updated: March 18, 2025, 10:33 AM IST | Shahab Ansari | Mumbai

حافظ طلحہ روزانہ تراویح سنانے کی تیاری کیلئے دن میں ۳؍ دور کرتے ہیں ، عصری تعلیم کے ساتھ قرآن کریم حفظ کیا، اس کےساتھ ہی ضلعی سطح کے والی بال مقابلوں میں بھی شرکت کی جس کی وجہ سے ڈپلوما میں داخلہ ملنا آسان ہوا،گزشتہ ۴؍ سال سے تراویح میںکلام پاک سنا رہے ہیں۔

Hafiz Talha Irfan. Photo: INN
حافظ طلحہ عرفان۔ تصویر: آئی این این

 ۱۹؍ سالہ حافظ طلحہ عرفان انصاری صابو صدیق پالی ٹیکنیک اسکول میں ڈپلوما اِن میکانیکل کے تیسرے اور آخری سال کے طالب علم ہیں اور گزشتہ ۴؍ برسوں سے تراویح میں قرآن شریف سنانے کا شرف حاصل کررہے ہیں۔ یہ اپنے خاندان کے پہلے حافظ ہیں اور والدین کی رہنمائی میں وقت کے صحیح استعمال سے فارس روڈ پر کرایے کے مختلف مکانات میں رہنے کے باوجود نہ صرف عصری تعلیم کے ساتھ قرآن کریم حفظ کیا بلکہ ضلعی سطح پر ’والی بال‘ کے مقابلوں میں بھی حصہ لے چکے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ایس ایس سی بورڈ میں اضافی مارکس ملے اور پھر موجودہ کورس میں داخلے میں بھی مدد ملی۔ 
 رمضان میں حافظ طلحہ کا تراویح کی تیاری کا معمول یہ ہے کہ وہ فجر کی نماز کے بعد اس دن سنائے جانے والے پاروں کو ۲؍ مرتبہ دوہرا لیتے ہیں۔ اس کے بعد ظہر کی نماز کے بعد ایک بار پھر دور کرلیتے ہیں اور پھر مغرب کی نماز کے بعد اپنی والدہ کو سناتے ہیں جو قرآن شریف میں دیکھ کر سن لیتی ہیں۔ 
 حافظ طلحہ کے حفظ قرآن کا قصہ بھی دلچسپ ہے، کم عمری سے ہی وہ مسجدوں کے امام اور علماء کو دیکھ کر بہت متاثر ہوتے تھے۔ انہیں دیکھ کر ان کا دینی تعلیم حاصل کرکے امام اور علما جیسا بننے کو دل چاہتا تھا۔ اس تعلق سے انہوں نے اپنے والدین سے تذکرہ کیا جو سن کر خوش ہوئے لیکن ان کی کم عمری کی وجہ سے اس بات پر سنجیدگی سے دھیان نہیں دیا۔ البتہ چند برس قبل ان کے محلہ کی مسجد کے ایک ذمہ دار کے کوئی رشتہ دار جو عالم دین تھے اور بیرون ملک سے آئے ہوئے تھے انہیں جمعہ کی نماز سے قبل بیان کرنے کا موقع دیا گیا اور انہوں نے قرآن شریف حفظ کرنے کی اہمیت اور حفظ کے فائدوں پر بیان کیا جسے سن کر حافظ طلحہ کے والد عرفان کو اپنے بیٹے کی بات یاد آگئی کہ اس نے دینی تعلیم کے حصول میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔ بیان سن کر انہیں اپنے بیٹے کو حفظ کرانے کی طرف رغبت پیدا ہوئی اور انہوں نے اپنے بیٹے سے اس تعلق سےبات کی جو فوری طور پر رضامند ہوگئے۔ 
 یہ تب کی بات ہے جب طلحہ تاڑدیو میں واقع سر کاوس جی جہانگیر ہائی اسکول میں ۷؍ویں جماعت میں زیر تعلیم تھے اور ان کی عمر ۱۳؍ برس تھی۔ البتہ گھر والوں کے سامنے سوال یہ تھا کہ حفظ کیلئے کس مدرسہ کا انتخاب کیا جائے تاکہ صبح کی اسکول اور شام کے ٹیوشن کے اوقات متاثر نہ ہوں۔ محلے کی مسجد اور قرب و جوار میں واقع مکاتب اور مساجد میں معلومات کی تو سب جگہ اوقات ایسے تھے کہ عصری تعلیم متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔ بالآخر فائن ٹچ مدرسہ کے اوقات ایسے تھے کہ حفظ کرنا ممکن نظر آیا اور یہاں داخلہ دلا دیا گیا۔ 
 حافظ طلحہ نے انقلاب کو بتایا کہ’’میری اسکول کا وقت صبح ۸؍ بجے سے دوپہر ۲؍ بجے تک تھا۔ مدرسہ کا وقت سہ پہر ۳؍ بجے سے شام ۷؍ بجے تک تھا اور شام ۷؍ بجے سے رات ۹؍ بجے تک ٹیوشن ہوتا تھا۔ مکتب چھوٹنے اور ٹیوشن پہنچنے کا وقت ایک ہی تھا لیکن ٹیوشن میں کچھ تاخیر سے پہنچنے کی رعایت مل گئی تھی اس لئے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ ‘‘
 کھیل کے تعلق سے انہوں نے بتایا کہ ان کی اسکول شروع ہونے سے قبل اسکول میں صبح ۷؍ بجے سے ۸؍ بجے کے درمیان والی بال کی مشق کرائی جاتی ہے اس لئے وہ ۷؍ بجے اسکول پہنچ جاتے اور والی بال کی پریکٹس کرتے، پھر اسکول سے ضلعی سطح تک والی بال کے مقابلوں میں حصہ لیا۔ ضلعی سطح پر کھیل میں حصہ لینے کی وجہ سے انہیں ایس ایس سی بورڈ میں ۳؍ فیصد مارکس کا فائدہ ملا اور صابو صدیق میں ڈپلوما میں داخلے میں بھی مدد ملی۔ اس وقت وہ ڈپلوما کے تیسرے اور آخری سال میں ہیں اور آگے کی تعلیم جاری رکھتے ہوئے ’ڈگری اِن میکانیکل انجینئرنگ‘ کرنا چاہتے ہیں۔ 
 ان کے مطابق ’’قرآن شریف حفظ کرنا شروع کرکے زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ کورونا وائرس کی وباء پھیل گئی اور لاک ڈائون لگ گیا۔ ابتدائی چند دنوں میں تو اسکول اور مکتب سب بند تھے لیکن پھر اسکول اور مکتب میں آن لائن پڑھائی شروع ہوگئی اور یہ میرے لئے بہت اچھا موقع ثابت ہوا کیونکہ اس وقت اسکول کی پڑھائی کا دبائو کم ہوگیا تھا اس لئےمیں زیادہ وقت حفظ کو دینے لگا جس کی وجہ سے پہلے سال میں ۸؍ پارے حفظ کرلئے اور اس طرح ۳؍ سال سے کم عرصہ میں پورا قرآن شریف حفظ ہوگیا۔ ‘‘
 فی الحال حافظ طلحہ اپنی رہائش گاہ کے قریب واقع ایک عمارت میں ایک دوست حذیفہ شیخ کے گھر پر تراویح پڑھا رہے ہیں۔ ان کا دوست بھی حافظ قرآن ہے جس نے خود ہی انہیں اپنے گھر پر تراویح پڑھانے کی پیشکش کی تھی اور حافظ طلحہ اس پر رضامند ہوگئے۔ یہاں یہ دونوں ۱۵؍ دنوں کی تراویح پڑھا رہے تھے جس میں روزانہ ۲؍ پارے سنائے جاتے تھے۔ یہ سلسلہ ۲؍ روز قبل اتوار کو ہی مکمل ہوا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK