۴۲؍سال سے تراویح پڑھارہے ہیں حافظ مفتی شریف صابری ۔ امسال تھانے کے کیفل مل علاقے میں واقع قادریہ مسجد میں دس روزہ تراویح پڑھائی۔
EPAPER
Updated: March 30, 2024, 10:51 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai
۴۲؍سال سے تراویح پڑھارہے ہیں حافظ مفتی شریف صابری ۔ امسال تھانے کے کیفل مل علاقے میں واقع قادریہ مسجد میں دس روزہ تراویح پڑھائی۔
۴۲؍سال سے تراویح پڑھارہے ہیں حافظ مفتی شریف صابری ۔ امسال تھانے کے کیفل مل علاقے میں واقع قادریہ مسجد میں دس روزہ تراویح پڑھائی۔گزشتہ تین برس سے یہ یہاں امام وخطیب ہیں۔ اس سے قبل۳۲؍ برس تک ممبئی کی الگ الگ مساجد ،اللہ والی مسجد، ماہم درگاہ مسجداور مسجد نور تھانے میں تراویح پڑھائی۔ اس کے علاوہ کچھ عرصہ مینارہ مسجد میں امامت بھی کی۔ان کا آبائی وطن قصبہ پاک بڑا ضلع سنبھل ہے جو پہلے مرادآباد میں ہواکرتا تھا۔
حافظ مفتی شریف صابری نے تکمیل حفظ کے بعد پہلی تراویح مراد آباد میںکچہری سے متصل منصفی مسجد میںپڑھائی تھی۔ اس کے بعد ۱۰؍ برس تک قرب ونواح کی الگ الگ مساجد میں پڑھاتے رہے ۔ پھرممبئی کا سفر کیا ۔ تکمیل حفظ کے بعد سےآج تک تراویح پڑھانے کا ناغہ نہیںہوا۔
قرآن کریم حفظ کرنے کی تحریک ان کے ننیہال رتن پور مرادآباد میں مکتب کے استاذ حافظ عبدالحکیم نے دلائی۔حافظ مفتی شریف کے مطابق ’’ حافظ عبدالحکیم ؒ نے حکم دیا کہ تم حفظ شروع کرو مگر میںتیار نہیں تھا، میں حافظ نہیںبننا چاہ رہا تھا مگران کے غصے اورسختی کے سبب بادل نخواستہ تیار ہوگیا ۔ اس کے بعد مرادآباد کی مشہور دینی درسگاہ جامعہ نعیمیہ میں داخلہ لیا ۔ یہاں قاری گلزار کے پاس حفظ کیا۔اس کے بعد اجمل العلوم میں قاری زاہد حسینؒ الادپوری کے پاس دَور کیا۔ افتاء بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت کے ادارے میں کیا۔ ‘‘
اپنے مشفق استاذقاری گلزارکے تعلق سے وہ بتاتے ہیںکہ ’’ آج بھی وہ جامعہ نعیمیہ مرادآباد میں پڑھا رہے ہیں ، وہ بھی بہت سخت تھے۔ سبق یاد کرنے کے دوران اگر بازومیںبیٹھے ہوئے ساتھی سے بات چیت کرلی یاقرآن کریم کےبجائے دیوار پریا ادھر ادھر دیکھ لیا تو قاری صاحب یہ کہہ کرطمانچہ رسیدکرتے کہ قرآن میںدیکھنے سے یاد ہوگا یا دیوار پردیکھنے سے؟ ۔‘‘
حافظ شریف صابری کے خانوادےمیں پہلے علماء اور حفاظ تو نہیں تھے مگر ان کے پردادا قصبہ پاک بڑا کے قاضی شہر تھے،اس بناء پرگھر میںرہن سہن دینی تھامگر آج ان کے دوبیٹے حافظ ہیں ۔ بڑا بیٹا انجینئر بھی ہے اور چھوٹا بھی عصری علوم حاصل کرنے کے ساتھ حفظ کرچکا ہے ۔بیٹی عالمہ ہے۔
حافظ شریف نے تراویح پڑھانے کے اپنے اندازکےتعلق سے یہ کہتے ہوئے ایک وضاحت کی کہ ’’ یوں توجو حفاظ عالم بھی ہیںجب وہ پڑھتے ہیںتو ان کے سامنے معانی بھی ہوتے ہیں اور آیات ِ رحمت وآیاتِ وعید پرکیفیت بدل جاتی ہے لیکن میںنے اس سے ہٹ کرایک اورچیز پرتوجہ دی ہے وہ ہے کلام اللہ میںمکالمہ ۔ کہیںموسیٰؑ اورفرعون کا مکالمہ ہے ،کہیںابراہیم ؑکا توکہیںباری تعالیٰ کا حکم اور شیطان کا انکارہے، تلاوت کے دوران میںاُسی انداز میںپڑھنے کی کوشش کرتا ہوں ،اسے لوگ پسند بھی کرتے ہیں۔‘‘
حافظ شریف صابری کی ایک خوبی یہ بھی ہےکہ وہ ملّی مسائل کو سمجھنے اورحل تلاش کرنے کی جد وجہد میںپیش پیش رہتے ہیں۔ وہ ملّی مسائل میںمسلکی اختلاف سے دور رہ کر مسائل کے حل پرتوجہ دینے کے ساتھ عوا م الناس تک اسے پہنچانے کےتئیںبھی کوشاں رہتے ہیں ۔ ان سے یہ پوچھنے پرکہ ’صابری ‘آپ کے نام کے ساتھ کس طرح جُڑگیا توانہوںنے کہاکہ’’ یہ میرے پیرومرشد کی نسبت سے ہے اورہمارا سلسلہ حضرت صابرعلی کلیریؒ سے ملتا ہے ۔‘‘
حافظ شریف صابری نےقرآن کریم حفظ کرنے والوں کو متوجہ کرتے ہوئے کہاکہ ’’ حفاظ صرف یہ بات ذہن میںرکھیںکہ کلامِ الہٰی پڑھ رہے ہیں،اس کی عظمت اوررب کائنات کی بڑائی غالب رہے ۔ اگرذہن میںیہ بات راسخ ہوجائے گی تو کلام اللہ پڑھنے میںزیادہ لطف آئے گا اور تلاوت کا معمول ترک ہونے کااندیشہ بھی نہیں رہے گا۔‘‘