Updated: February 16, 2024, 9:47 PM IST
| Haldwani
۸؍ فروری کو ہلدوانی میں پھوٹ پڑنے والے تشدد کے حقائق جاننے کیلئے اے پی سی آر اور کاروانِ محبت کی ٹیم نے علاقہ کا دورہ کیا۔ گزشتہ دن فیک فائنڈنگ ٹیم نے اپنی رپورٹ پیش کی جس میں لرزہ خیز انکشافات ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق پولیس کی جارحیت اور حکام کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کے سبب ہلدوانی میں تشدد پھوٹ پڑا جسے بعد میں فرقہ وارانہ تشدد کا رنگ دیا گیا۔
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے۔ تصویر: ایف او ای جے (ایکس)
ہلدوانی میں حقائق کی تلاش کرنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہلدوانی میونسپل کارپوریشن کے ذریعےمریم مسجد اور عبد الرزاق زکریا مدرسہ کو منہدم کرنے کے ساتھ پولیس کی جارحیت کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور دیگر کئی زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی مسلمانوں کو خدشہ ہے کہ مرنے والوں کی تعداد ۲۰؍ سے تجاوز کر سکتی ہے جبکہ حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ تعداد ۶؍ ہے حالانکہ رپورٹ میں ۷؍ اموات کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
زمینی حقائق کیلئے دورہ کرنے والی ٹیم
اسو سی ایشن فار پروٹیکشن فار سول رائٹ ( اے پی سی آر) اور کاروانِ محبت کی قیادت میں فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے ۱۴؍ فروری کو ہلدوانی کا دورہ کیاجس میں سول سوسائٹی کے ارکان، وکلاء اور سبکدوش عوامی نمائندے شامل تھے۔ انہوں نے زمینی حقائق جاننے کیلئے انٹرویو کئے، عینی شاہدین کے بیانات لئےاور شواہد اکٹھے کئے۔
رپورٹ کے مطابق تشدد کے نتیجے میں ۷؍ افراد ہلاک ہوئے ہیں اور اب تک ۳۱؍ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ۹۰؍ سے زائد افراد کو پوچھ گچھ کیلئے حراست میں لیا گیا ہے۔ ۵؍ ہزار نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ تاہم، مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۲۰؍ سے زیادہ ہے۔
رپورٹ میں الزام لگایا ہے کہ میونسپل کمشنر پنکج اپادھیائے کی جانب سے غیر ذمہ داری کے اظہار نے شکوک پیدا کر دیئے ہیں کیونکہ انہی کہ اقدام کے نتیجہ میں تنائو میں اضافہ ہوا۔
۸؍ فروری کے حالات
۸؍ فروری کی شام کو پولیس کا عملہ، کارپوریشن کے کارکن، صفائی کارکن اور دو بلڈوزر ۴؍ بجکر ۳۰؍ منٹ پر جائےوقوع پر پہنچے۔ ضلع مجسٹریٹ کے ساتھ ملاقات کے بعد سے انہدام کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ مقامی افراد نے بتایا کہ بعد میں دو بلڈوزر اور آگئے۔ رپورٹ میں یہ پایا گیا کہ اپنے محکمہ سے ٹرانسفر ہونے کے باوجود پنکج اپادھیا ئے نے بطور میونسپل کمشنر اپنی خدمات جاری رکھیں۔ انہوں نے امت مسلمہ کو گالیاں دیں، ساتھ ہی انہدام والے دن خواتین کے ساتھ بد سلوکی بھی کی۔ اس کے ویڈیوسوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقامی خفیہ معلومات کی بناء پر انتظامیہ کو صبح کے وقت انہدامی کارروائی کا مشورہ دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ تصادم سے بچنے کیلئے مقامی افراد اور علماء کو بھی اعتماد میں لینے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود بغیر پیشگی اطلاع کے عملہ نے انہدامی کارروائی انجام دی جس کے خلاف خواتین کی بڑی تعداد وہاں اکٹھا ہوئی اور احتجاج کر نے لگی۔ تکنیکی طور پر مسجد اور مدرسہ حکومت کے زیر نگیں تھا کیونکہ اسے سیل کیا گیا تھا۔
نینی تال ضلع مجسٹریٹ وندنا کا متاثرہ علاقوں کا دورہ۔ تصویر: پی ٹی آئی
مسلمانوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا
مسجد اور مدرسہ کے انہدام کی خبروں سے شروع ہونے والے احتجاج کے دوران صورت حال اس وقت مزید خراب ہو گئی جب خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ اس کے علاہ ان پر جسمانی تشدد اور جبراً وہاں سےہٹانے کوشش کی گئی۔ بدسلوکی کے علاوہ خواتین کو مارا، پیٹا اور گھسیٹا بھی گیا۔ یہ مناظر تصویر اور ویڈیوز میں قید ہو گئے جس نے عوام کےاشتعال میں مزید اضافہ کیا نتیجتاً پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں جبکہ پولیس نے ہلکی طاقت کا استعمال کیا۔
اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اس افرا تفری کے درمیان پولیس نے مسجد اور مدرسہ پر لگا سرکاری تالا کھول دیا۔ خفیہ معلومات میں یہ ہدایت دی گئی تھی کہ مقدس کتابیں اور دیگر سامان تفتیش کے بعد مولانا کے حوالے کر دی جائیں۔ لیکن پولیس نے قران پاک کی فہرست نہیں بنائی اور دیگر سامان وہیں رکھ دیا اور ذمہ دار حکام کے حوالے کرنے سے بھی گریز کیا۔ اس کے نتیجے میں مذہبی نعرے بازی ہونے لگی اور مسلمانوں کی جانب سے پولیس پر پتھرائو شروع ہو گیا جس کےجواب میں پولیس کی جانب سے بھی پتھرائو کیا گیا۔
حکام کے مطابق گولی باری کا حکم رات کے وقت کا تھا لیکن فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے الزام لگایا کہ دن کے اجالے میں بھی ہوائی فائرنگ کی گئی۔ رپورٹ میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ ۱۴؍ فروری کو عدالت میں ہونے والی سماعت کے باوجود انتظامیہ، مسجد اور مدرسہ کو منہدم کرنے میں اتنی جلد بازی کیوں کر رہی تھی۔ اس کے علاوہ مسلم معاشرہ کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا جبکہ سیل کرتے وقت ان کا تعاون حاصل کیا گیا تھا۔
گھروں میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں میں گولی باری کا سلسلہ جاری تھا جس میں تقریباً ایک ہزار سے ۲؍ ہزار رائونڈ فائر کئے گئےجبکہ میڈیا محض ۳۵۰؍رائونڈ گولی باری کی بات کہہ رہا ہے۔
رپورٹ میں بتا گیا کہ شام ۷ ؍ بجے سے رات ۹؍ بجے تک تقریباًدو گھنٹے تک افرا تفری اور آتشزنی کا سلسلہ جاری تھاجس کے بعد کرفیو کا حکم دیا گیا۔ اور بعد میں دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دے دیا گیا۔ تاہم، کرفیو کے باوجود پولیس کی جانب سے مظالم کا سلسلہ جاری رہا۔ ۸؍ اور ۹؍ فروری کی درمیانی شب گاڑیوں کی توڑ پھوڑ، گھروں میں گھس کر خواتین، بچوں اور نو جوانوں پر تشدد کیا گیا۔
والمیکی سماج نے پولیس کے ساتھ مل کر تشدد کیا
رپورٹ نے پایا کہ ہندوؤں کی بھیڑ بھی حملے میں شامل ہو گئی۔ رپورٹ کے مطابق والمیکی سماج کےصفائی کارکنوں نے مسلمانوں پر حملہ کرنے میں پولیس کا ساتھ دیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ سات میں سے ایک فرد کو ہندو ہجوم کے ارکان نے گولی مارکر ہلاک کر دیا۔
رپورٹ کے مطابق صفائی کارکن جن میں اکثریت والمیکی سماج سے تعلق رکھتی ہے نے تصادم کے دوران پولیس کا ساتھ دیا۔ انہوں نے اپنے سماج کو مسلمانوں پر حملہ کرنےپر اکسایا جس کے نتیجے میں یہ فرقہ وارانہ فساد میں تبدیل ہو گیا۔ مقامی افراد کے مطابق جےشری رام کے نعرے کے ساتھ توڑ پھوڑ کی گئی اور مسلمانوں پرحملہ کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ صفائی کارکنوں کا پولیس کا ساتھ دینا ان کی غیر جانبداری سے خدمت کرنے اور عوامی اعتماد کو بر قرار رکھنے کےفرض پر سوال اٹھا تا ہے۔ ان کا یہ حملہ مسلمانوں سے ان کی نفرت اور بنیاد پرستی کے سبب عمل میں آیا کیونکہ والمیکی سماج کے ایک شخص سنجے سولنکر نے اپنے مسلم ہمسائے فہیم کو قتل کر دیا۔
متاثرہ افراد نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ تصویر: پی ٹی آئی
ضلع مجسٹریٹ کا مضحکہ خیز بیان
مکتوب میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق اس ٹیم نے بتایا کہ ضلع مجسٹریٹ کی جانب سے ایک مضحکہ خیز بیا ن دیا گیا کہ ۸؍ فروری کو انہدام سے قبل علاقے میں سماج کے معزز لیڈروں سے فون پر رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ان کے فون بند ہونے کی وجہ سے رابطہ نہیں ہو سکاجبکہ علماء اور سرکردہ شخصیات نے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ بیک وقت ۸۰؍ افراد کے فون کس طرح بند ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے مجسٹریٹ کو اس دعویٰ کو ثابت کرنے کیلئے جوابدہ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
موجودہ حالات
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بے قابو ہیں۔ دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم برقرار ہے جس کی وجہ سے لوگ بنیادی ضرورتیں اور طبی سہولت سےمحروم ہیں۔ خوفزدہ باشندوں نے اپنے گھروں کو خالی ظاہر کرنے کیلئے دروازوں پر باہر سے تالےلگا دیئے ہیں لیکن پولیس تالا توڑ کر اندر موجود ہر فرد کو بے رحمی سے زدوکوب کررہی ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۳۰؍ سے ۳۶؍ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس نے ٹارچر چیمبر سےمشابہ حراستی مرکز قائم کئے ہیں جہاں متعدد افراد بشمول ہلدوانی کے وہ لوگ جو مختلف وجوہات کی بناء پر دوسرے شہروں میں موجود تھے، انہیں قید کر کے رکھا گیا ہے۔