۱۰؍ یرغمالوں کے بدلے ۴۵؍ دنوں کی جنگ بندی نامنظور، جنگ ختم کرنےکیلئے تمام یرغمالوں کی رہائی کی پیشکش کی۔
EPAPER
Updated: April 19, 2025, 1:02 PM IST | Agency | Gaza
۱۰؍ یرغمالوں کے بدلے ۴۵؍ دنوں کی جنگ بندی نامنظور، جنگ ختم کرنےکیلئے تمام یرغمالوں کی رہائی کی پیشکش کی۔
حماس نےمکمل جنگ بندی پر زور دیتے ہوئے اسرائیل کی جانب سے عبوری جنگ بندی کی پیشکش کو مسترد کردیا ہے۔ جنگجو تنظیم کے سینئر لیڈر خلیل الحیا نے اعلان کیا ہے کہ حماس غزہ میں جنگ کے خاتمے اور اسرائیل میں قید فلسطینیوں کی رہائی کے عوض تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کوتیار ہے لیکن اس کیلئے ایک جامع معاہدہ ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اسرائیل کی جانب سے عبوری جنگ بندی کی پیشکش کو ہم مسترد کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے۱۰؍ زندہ یرغمالوں کی رہائی کے عوض ۴۵؍ دنوں کی عبوری جنگ بندی کی پیشکش کی تھی۔
جنگ بندی سے کم کچھ بھی قبول نہیں
خلیل الحیا جو حماس کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ بھی ہیں، نے ایک ٹی وی خطاب میں کہا کہ’’ جزوی معاہدے صرف اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کیلئےہیں۔ ‘‘انہوں نے کہا کہ ’’ہم ایسی کسی حکمت عملی کا حصہ نہیں بنیں گے جو جنگ، تباہی اور بھوک کو جاری رکھنے کا ذریعہ ہو۔ ‘‘ نیتن یاہو حکومت کی جانب سے جو پیش کش کی گئی تھی اس میں ۱۰؍ یرغمالوں کے بدلے ایک ہزار ۲۳۱؍ فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور امدادی سامان کو غزہ میں داخل ہونے دینے کا وعدہ شامل تھا۔ تل ابیب کی پیشکش میں حماس سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ مکمل جنگ بندی کیلئے وہ خود کو غیر مسلح کرنے کا اعلان کرے۔ صہیونی ریاست کا یہ ایسا مطالبہ ہے جس کا منظور ہونا تقریباً ناممکن ہے۔
یہ بھی پڑھئے:سعودی عربیہ: کھجوروں کی برآمدات کی مالیت۲۰۲۴ء میں۹۶ء۱؍ ارب ریال تک پہنچ گئی
خان یونس میں اسرائیلی بمباری، ۴۵؍ جاں بحق
اس بیچ خان یونس اوراس کے اطراف کے علاقوں میں اسرائیل کی شدید بمباری کے نتیجے میں ۲۴؍ گھنٹوں میں ۴۵؍ افراد شہید ہوئے ہیں۔ بنی سہیلہ میں اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے۱۰؍ افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہو گئے۔ غزہ میں سوِ ل ڈیفنس محکمہ کے ترجمان محمود باسل نے بتایا کہ برکا خاندان کی رہائش گاہ اور آس پاس کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا، جہاں سے لاشوں اور زخمیوں کو نکالا گیا۔
’’غزہ میں بچوں کو دن میں صرف ایک بارکھانا نصیب ہورہاہے‘‘
۲؍مار چ سے غزہ میں عالمی امداد کا ایک ٹرک بھی داخل نہیں ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے یہاں کھانے پینے کی اشیاء کی قلت ہر گزرتے لمحے بڑھتی جارہی ہے۔ جنگ زدہ علاقے میں امدادی کام میں مصروف ۱۲؍ عالمی اداروں کے ذمہ داران نے متنبہ کیا ہے کہ صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے اور بچوں تک کو دن میں ایک بار ہی کھانا نصیب ہورہاہے۔ تنظیموں کی جانب سے جاری بیان میں کہاگیا ہے کہ ۱۸؍ ماہ سے جاری جنگ اور زائد از ایک ماہ سے معاشی ناکہ بندی کی وجہ سے ’’غزہ پوری طرح سے ڈھیر‘‘ ہورہاہے۔
غزہ میں ۴۳؍ بین الاقوامی تنظیمیں امدادی کام کررہی ہیں، ان میں سے کم وبیش ۹۳؍ فیصد نے امداد نہ پہنچنے کی وجہ سے اپنی خدمات معطل کردی ہیں۔ اوکسیم گروپ کی سربراہ بشریٰ خلیل نے زمینی صورتحال کو بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’’بچے ایک دن میں ایک ہی وقت کا کھانا کھا پاتے ہیں اور پھر اگلے کھانے کیلئے انہیں نئے سرے سے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’صرف اور صرف ڈبہ بند کھانا بچا ہوا ہے جو لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کررہاہے۔ ‘‘