ٹی ایم سی رکن مہوا موئترا نے مودی حکومت کی آئینی خلاف ورزیوں کو کھل کر بیان کیا ، اقلیتوں اور بلڈوزر کا بھی ذکر۔
EPAPER
Updated: December 20, 2024, 11:52 AM IST | New Delhi
ٹی ایم سی رکن مہوا موئترا نے مودی حکومت کی آئینی خلاف ورزیوں کو کھل کر بیان کیا ، اقلیتوں اور بلڈوزر کا بھی ذکر۔
لوک سبھا میں آئین پر بحث شامل کرنے کے لئے میں چیئر کا شکریہ ادا کرتی ہوں اور اپنی بات یہاں سے شروع کرتی ہوں کہ یہ آئین ملک کی ترقی اور سبھی طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کے لئے تیار کیا گیا تھا ۔ گزشتہ ۷۵؍ سال میں ایسا ہوا ہے لیکن ان میں سے گزشتہ ۱۰؍ سال میں آئین کی دھجیاں اڑانے کی جو کوششیں ہوئی ہیں ان سے ہم سب شرمسار ہیں۔
میں یہاں معروف شاعر ہلال فرید کی نظم کی مدد سے اپنی بات کو آگے بڑھائوں گی۔اس کے کئی معنی نکالے جاسکتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ بی جے پی اس کے کیا معنی نکالے گی۔ نظم پیش کرتی ہوں کہ ’’مبارک گھڑی ہے/کل سج دھج کر/میک اَپ رچ کر/خوب جچ کر/دیکھو اس کا منچ پر آنا/کتاب سنویدھان کی آنکھوں سے لگانا/اور فرمانا میں شیش کو جھکا کر/اس کتاب کو من میں بسا کر/ ایشور کی شپتھ لیتا ہوں/رات ڈھلنے دیجیے/دن بدلنے دیجیے/کل تلک یہ بے وفا/ستم گروں کا بادشاہ/سب بھول جائے گا/نفرتیں اُگائے گا/دوریاں بڑھائے گا/روز سنویدھان کی دھجیاں اڑائے گا/مگر جو آج محفل سجی ہے/یہی مانتی ہے کہ ہیرو وہی ہے/مبارک گھڑی ہے‘‘
گزشتہ ۱۰؍سال میں سیاسی عہدیداروں نے جمہوریت کو سلسلہ وار طریقے سے نقصان پہنچایا ہے۔ ۱۹۷۶ءکی دہائی میں کانگریس کے دور حکومت میں جسٹس ایچ آر کھنہ کا ذکر راجناتھ جی نے بڑے زور و شور سے کیا لیکن میں سبھی کو یاد دلانا چاہتی ہوں کہ جسٹس کھنہ۱۹۷۶ء کے بعد بھی ۳۲؍ سال زندہ تک رہے جس میں بیشتر وقت کانگریس کی حکومت تھی اور انہوں نے اپنی خود نوشت بھی لکھی۔ لیکن موجودہ دور حکومت میں ایک جج اپنی فطری موت نہیں مرے۔جسٹس لویا تو اپنے وقت سے بہت پہلے اس دنیا سے وداع ہو گئے۔ یہ حکومت شہریت ترمیمی قانون یعنی سی اے اے لائی جو براہ راست شہریوں کے بنیادی حقوق پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ سبھی بی جے پی حکمراں ریاستوں میں بلڈوزرجسٹس کے نام پر مکانات کو توڑاجارہا ہے۔ قانونی طریقوں پر عمل کئے بغیر اقلیتوں کے گھروں کو منہدم کیا جارہا ہے۔ ایک ریاستی حکومت تو کھانے پینے کی دکان لگانے والوں کو اپنی دکان کے آگے نام کی تختی لگانے کا حکم دے رہی ہے۔ ظاہر ہے اس کا اصل مقصد اقلیتوں کی شناخت کرنا اور انہیںمعاشی نقصان پہنچانا ہے۔
پروفیسر ترون کھیتان کہتے ہیں کہ کوئی بھی حکومت جمہوری اور آئینی طور طریقوں پر عمل کرتی ہے یا نہیں اس بارے میں جاننے کے لئے انہوں نے ۳؍ پیرامیٹرز طے کئے تھے ۔ پہلا عوام کے تئیں سرکار کی جوابدہی ، عدلیہ کے تئیں سرکار کی جوابدہی اور میڈیا اور دیگر سوال پوچھنے والے اداروں کے تئیں سرکار کی جوابدہی ۔اگر ہم ان تینوں پیرا میٹرز پر حکومت کی کارکردگی کو پرکھنے کی کوشش کریں تو یہی صورتحال سامنے آتی ہے کہ سرکار نے ووٹرس کے تئیں جوابدہی پر اپنا دامن جھاڑنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ یہاں تک کہ ووٹرس لسٹ سے نام غائب کرنا ، بہت سے ووٹرس کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہ دینا اور انہیں گھروں تک محدود کرنا یہ واضح طور پر دکھاتا ہے کہ سرکار ووٹرس کے تئیں جوابدہی نہیں چاہتی ہے۔
جہاں تک انتخابات کو متاثر کرنے کی بات ہے تو الیکٹورل بونڈ ایسا طریقہ تھا جس کے ذریعے بی جے پی نے کئی انتخابات اپنے نام کئے اورکئی سرکاریں گرانے کا بھی کام کیا۔جہاں تک تیسرے پیرامیٹر کی بات ہے تو اس سرکار نے اسے بھی متاثر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ویجی لنس کمیشن ، الیکشن کمیشن ، حقوق انسانی کمیشن اور ایسے ہی دیگر اداروں میں نہ صرف گھس پیٹھ کی گئی بلکہ ان میں اپنے لوگوں کو بٹھانے کے لئےان کے انتخاب کا طریقہ ہی تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ۔کیا مودی حکومت سے قبل کبھی کسی الیکشن کمشنر نے اپنا عہدہ وقت سے پہلے چھوڑا تھا ؟ کیا مودی حکومت سے قبل حقوق انسانی کمیشن کی ایسی درگت ہوئی تھی کہ اقوام متحدہ نے اس کی منظوری ختم کردی ہے۔ سرکار سوال کرنے والوں سے کتنی خوفزدہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عمر خالد ، شرجیل امام ،ہنی بابو اور دیگر آج بھی جیل میں ہیں۔ محمد زبیر کے خلاف کیس پر کیس درج کئے جارہے ہیں۔ سی بی آئی اور ای ڈی کا استعمال کرکے ایک سرمایہ دار کو ملک کے تمام وسائل سونپے جارہے ہیں اور یہ سرکار اُف تک نہیں کرنے دے رہی ہے۔ ایسے دور میں جب ہمارے تمام آئینی حقوق سلب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ہمیں آئین کو بچانے کے لئے بہت غیرمعمولی لڑائی لڑنے کے لئے تیار رہنا ہے۔