اس دوران مساجد اور دیگر عبادتگاہوں پردعوے کے نئے مقدمات پر پابندی اور زیر التواء کیس میں فیصلہ نہ سنانے کا سپریم کورٹ کا سابقہ حکم برقرار رہے گا
EPAPER
Updated: February 17, 2025, 11:26 PM IST | New Delhi
اس دوران مساجد اور دیگر عبادتگاہوں پردعوے کے نئے مقدمات پر پابندی اور زیر التواء کیس میں فیصلہ نہ سنانے کا سپریم کورٹ کا سابقہ حکم برقرار رہے گا
سپریم کورٹ نے عبادتگاہوں کے تحفظ کے قانون’پلیس آف ورشپ ایکٹ‘ کو سختی کے ساتھ نافذ کرنے کا مطالبہ کرنے والی جمعیت علماء ہند اوردیگر اداروں کی درخواستوں پر سماعت کو پیر کو اپریل تک کیلئے ملتوی کردیا۔البتہ کورٹ نے واضح کیا ہے کہ مساجد اور درگاہوں کے سروے پر روک کاسابقہ حکم کو برقرار رہےگا اور ذیلی عدالتیں اس ضمن میں مزید نئی درخواستوں کو قبول نہیں کریں گی۔
چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کی بنچ نے پلیس آف ورشپ ایکٹ کے کیس میں مداخلت کار بننے کی نئی درخواستوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ درخواستوں کی تعداد کی کوئی حد متعین ہونی چاہئے۔ عدالت نے مزید کہا کہ جن رٹ پٹیشن پر ابھی تک نوٹس جاری نہیں کیا گیا، انہیں مسترد سمجھا جائے، تاہم بنچ نے عرضی گزاروں کو اجازت دی کہ اگر ان کے پاس اس معاملہ میں عرضی دائر کرنے کی کوئی نئی بنیاد ہے تو وہ مداخلت کار کے طورپر عرضی دائر کرسکتے ہیں۔ اب اس معاملہ میں سماعت اپریل کے آغاز میں ہوگی۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار کی بنچ نے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی حمایت اور مخالفت میں داخل کی گئی تمام عرضداشتوں کو یکجا کرکےسماعت کی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باجود مرکزی حکومت نے ایک بارپھر اپناحلف نامہ داخل نہیں کیا۔ اس قانون کی مخالفت کرنے والے وکلاء مرکزی حکومت کے جواب داخل نہ کرنے پر برہم ہوگئے۔ اس پرچیف جسٹس نے کہاکہ پہلے عرضداشتیں داخل کرنے کا عمل ختم ہو اس کے بعد ہی مرکزی حکومت تمام عرضداشتوں پر ایک ساتھ حلف نامہ داخل کرے گی۔ جمعیۃ علماء ہندکے وکیل ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول (نوڈل کونسل) نے اب تک اس مقدمہ میں داخل تمام درخواستوں کی تلخیص پیش کی جس کو چیف جسٹس نے قبول کرلیا۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے عدالت میں پیر کی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مساجد ودرگاہوں کے سروے پر روک کو برقرار رکھنے کواہم بتاتے ہوئے کہاکہ اس سے فرقہ پرست عناصر کی شرانگیز سرگرمیوں پر قدغن لگی رہے گی۔