سپریم کورٹ نے یہ پوچھا کہ اگر وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو جگہ دی جائیگی تو کیا اسی منطق کے تحت مسلمانوں کو ہندو مذہبی بورڈز میں شامل کیا جائے گا؟، آج پھر سماعت
EPAPER
Updated: April 16, 2025, 11:50 PM IST | New Delhi
سپریم کورٹ نے یہ پوچھا کہ اگر وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو جگہ دی جائیگی تو کیا اسی منطق کے تحت مسلمانوں کو ہندو مذہبی بورڈز میں شامل کیا جائے گا؟، آج پھر سماعت
وقف ترمیمی قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے سخت سوالات کئے۔ عدالت نے خاص طور پر’ وقف بائی یوزر املاک‘ اور مرکزی وقف کونسل میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت سے متعلق دفعات پر اعتراض ظاہر کیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی والی بنچ نے واضح طور پر کہا کہ وقف بورڈ میں صرف مسلمان اراکین ہونے چاہئیں، صرف وہ افسران جو عہدے کے لحاظ سے بورڈ میں شامل ہوں، انہیں رعایت حاصل ہو گی ۔سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ اگر وہ وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو جگہ دینا چاہتی ہے، تو کیا اسی منطق کے تحت مسلمانوں کو ہندو مذہبی بورڈز میں شامل کیا جائے گا؟ اس سوال نے ایک بار پھر اقلیتی اداروں کی خودمختاری اور مذہبی آزادی پر آئینی بحث کو ہوا دے دی ہے۔
سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا اور اس کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی کسی بورڈ کی میعاد ختم نہیں ہوئی ہے اور صرف عوامی مفاد کی عرضیوں کی بنیاد پر عدالت کو ایسے احکامات جاری نہیں کرنے چاہئے ۔ عدالت نے بھی اس سے اتفاق کیا اور کہا کہ فی الحال کوئی حکم جاری نہیں کیا جائے گاکیونکہ کوئی وقف بورڈ بذاتِ خود عدالت سے رجوع نہیں ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے آغاز میں ہی درخواست گزاروں سے دو نکات پر وضاحت طلب کی، اول، کیا یہ معاملہ سپریم کورٹ کی بجائے ہائی کورٹ بھیجا جانا چاہیے؟ دوم درخواست گزار کن نکات پر بحث کرنا چاہتے ہیں؟ درخواست گزاروں میں سے ایک کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر وکیل کپل سبل نے دلیل دی کہ نیا قانون آئین کے آرٹیکل ۲۶؍کی خلاف ورزی کرتا ہے جو ہر مذہب کو اپنے مذہبی امور خود چلانے کی آزادی دیتا ہے۔سبل نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ ترمیمی قانون میں ضلع مجسٹریٹ کو جو اختیارات د ئیے گئے ہیں وہ غیر آئینی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کلکٹر حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے اور اگر وہ انصاف کرنے کا اختیار حاصل کر لے تو یہ غیر جانبداری کے اصول کے خلاف ہے۔عدالت نے آخر میں یہ عندیہ دیا کہ وہ اس مقدمے میں دو عبوری احکامات جاری کرنے پر غور کر رہی ہے۔ ایک وقف بورڈ میں تمام اراکین مسلمان ہوں گے، دوسرا، جب تک کیس زیر سماعت ہے، حکومت ایسی کوئی کارروائی نہ کرے جس سے وقف بائی یوزر جائیدادوں کو منسوخ کیا جا سکے۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں اگلی سماعت ۱۷؍ اپریل بروز جمعرات ہوگی۔