شیواجی نگر میونسپل اُردو اسکول سےبنیادی تعلیم حاصل کرنےوالا طالب علم گرانٹ گورنمنٹ میڈیکل کالج اینڈ سرجے جے گروپ آف ہاسپٹلز ممبئی سےایم ڈی کرنےکی تیاری میں مصروف۔
EPAPER
Updated: April 28, 2024, 8:34 AM IST | Saadat Khan | Mumbai
شیواجی نگر میونسپل اُردو اسکول سےبنیادی تعلیم حاصل کرنےوالا طالب علم گرانٹ گورنمنٹ میڈیکل کالج اینڈ سرجے جے گروپ آف ہاسپٹلز ممبئی سےایم ڈی کرنےکی تیاری میں مصروف۔
گوونڈی، شیواجی نگر کے ۲۴؍ سالہ ڈاکٹر مومن محمد مصطفیٰ محمد عباس نے پیدائشی طور پرخون کےمرض ’ہیموپھیلیا‘میں مبتلا ہونےکےباوجود میونسپل اُردو اسکول سے بنیادی تعلیم اورگرانٹ گورنمنٹ میڈیکل کالج اینڈ سرجے جے گروپ آف ہاسپٹلز ممبئی سےایم بی بی ایس کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اب وہ ایم ڈی کرنےکیلئے نیٹ پی جی کاامتحان دینے کی تیاری کررہےہیں۔مصطفیٰ نے بیماری کواپنی پڑھائی میں حائل نہیں ہونے دیا۔ وہ پڑھائی کےذریعے بیماری پر قابوپانے کاجذبہ رکھتےہیں۔ اسی سوچ کی مدد سے انہوں نے ایم بی بی ایس میں کامیابی حاصل کرنےکا سفر طے کیا۔
شیواجی نگر ،لوٹس کالونی کی چال کے ڈاکٹر مومن محمد مصطفیٰ نے شیواجی نگر میونسپل اُردو اسکول نمبر ۴؍سے اپنی پڑھائی کاآغاز کیا۔ اسکول کے اطراف کھاڑی اور ڈمپنگ گرائونڈ ہونےسے چھٹی جماعت میں ٹی بی کی شکایت لاحق ہونے سے والدین نے مصطفیٰ کو لوٹس کالونی کے قریب واقع میونسپل اُردواسکول نمبر۵؍میں منتقل کر دیا ۔ یہاں سے ساتویں جماعت پاس کرکے جوہر اُردو ہائی اسکول (شیواجی نگر) سےمصطفیٰ نے۲۰۱۵ ء میں ۸۸ء۸۰؍ فیصد مارکس سے ایس ایس سی میں کامیابی حاصل کی۔بعدازیں چمبور کے اکیڈمک آف فائن آرٹس اینڈ کرافٹ کالج میں داخلہ لیا۔ یہاں سے ۲۰۱۷ءمیں ۷۰؍ فیصد مارکس سے ایچ ایس سی امتحان پاس کیا۔ اس دوران نیٹ امتحان کی تیاری بھی کی تھی لیکن پہلی مرتبہ امتحان میں کامیابی نہیں ملی ۔ ۲۰۱۸ءمیں دوسری مرتبہ نیٹ میں عمدہ مارکس سے کامیابی حاصل کی۔ اسی کی بنیاد پر ڈاکٹر مومن مصطفیٰ کو گرانٹ گورنمنٹ میڈیکل کالج اینڈ سرجے جے گروپ آف ہاسپٹلز ممبئی میں داخلہ مل گیا۔ایم بی بی ایس میں ۶۸؍فیصد مارکس حاصل کر کے ڈاکٹر بننے کی راہ ہموارکی۔ان کی ایک سال کی انٹرن شپ بھی مکمل ہوچکی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: کم داخلہ کے فرمان سے غریب طلبہ کے تعلیمی نقصان کا خطرہ
ڈاکٹرمصطفیٰ کےمطابق ’’ہیموپھیلیاکی شکایت ہونے سے بچپن سے بیماری اور اسپتال کو بہت قریب سے دیکھاہے ۔علاج کیلئے اکثر اسپتال کادورہ کرنے سے دیگر مریضوںاور ڈاکٹروں کو دیکھ کر ڈاکٹر بننے کاخیال بچپن میں ہی آیاتھا۔ ڈاکٹر بننےکیلئے پڑھائی کرناضروری تھا۔ اسی خیال نے بیماری کےبجائے پڑھائی کی جانب توجہ مرکوز کی۔حالانکہ ۱۴۔۱۵؍سال کی عمر تک ہیموپھیلیا کی وجہ سے ہر سال کم ازکم ایک سے دومرتبہ مہینے ڈیڑھ مہینے کیلئے بسترپر رہنا پڑتا تھا۔ اس کے باوجود مجھ پر مایوسی طاری نہیں ہوتی تھی۔طبیعت ٹھیک ہونے پر دوبارہ نئے جوش و جذبہ سے پڑھائی شروع کردیتاتھا۔ اسی حوصلہ اور جوش کی بنا پر اب تک کی پڑھائی مکمل کی ہے ۔ آئندہ بھی ان شاء اللہ خدمت خلق کےمقصدکے تحت پڑھائی جاری رکھوں گا۔ میرا خیال ہےکہ تعلیم ہی کامیابی کی کنجی ہے۔‘‘