• Fri, 10 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

حزب اللہ کا پہلی بار اسرائیل کے حیفا اور رامات ایئر بیس پر حملہ

Updated: September 23, 2024, 10:14 AM IST | Beirut

سنیچر کی رات سے اتوار تک ۱۰۰؍ سے زائد میزائل داغے۔ اسرائیلی سرحدسے ۵۰؍کلومیٹر تک کے علاقے کو نشانہ بنایا۔ کئی علاقے میں سائرن بج اٹھے۔

An attempt is being made to control the fire in an area of ​​Israel due to the missile attack. Photo: INN.
میزائل حملے کے سبب اسرائیل کے ایک علاقے میں آتشزدگی پرقابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تصویر: آئی این این۔

حزب اللہ نے لبنان سے اسرائیل کے علاقے حیفا کے جنوب مشرق میں واقع رامات ڈیوڈ بیس پر ’فادی ون‘ اور ’فادی ٹو‘ میزائلوں سے حملہ کیا۔ اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے حزب اللہ نے کہا کہ یہ لبنان پر بار بار اسرائیلی حملوں کا جواب ہے۔ ’العربیہ‘کی خبر کے مطابق سنیچر کی رات سے اتوار تک حزب اللہ نے بالائی الجلیل اور حیفا کے جنوب کی طرف ۱۰۰؍ سے زیادہ میزائل داغے۔ اس حملے سے حیفا کے جنوب میں یوکونام میں سائرن بج اٹھے۔ ان میزائلوں کا بنیادی ہدف رامات ڈیوڈ بیس تھا۔ حزب اللہ کے میزائلوں نے عفولہ شہر اور مرج بن عامر میں رامات ڈیوڈ بیس اور اسرائیل کی فوجی چوکیوں سمیت اہم مقامات کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی دفاعی نظام حزب اللہ کے میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہا۔ 
میڈیا کی خبروں کے مطابق حزب اللہ کے اب تک استعمال نہ کئے جانے والے میزائلوں نے سرحد سے اندر۵۰؍ کلومیٹر تک علاقے کو نشانہ بنایا۔ 
دوسری طرف اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس نے لبنانی سرزمین سے لگ بھگ۱۰؍راکٹ لانچوں کی نگرانی کی اور لبنان کی سرزمین سے داغے گئے زیادہ تر راکٹوں کو روک دیا۔ اسرائیل نے شہریوں کو حزب اللہ کی جانب سے حیفا اور دیگر شمالی علاقوں پر حملے سے خبردار کیا ہے۔ 
واضح رہے کہ جمعہ کو اسرائیل نے جنوبی بیروت کے مضافاتی علاقے میں بمباری کر کے حزب اللہ کی ’رضوان فورس‘ کی پوری کمان کو ہلاک کر دیاتھا۔ لبنان کی وزارت صحت نےگزشتہ روز اعلان کیا کہ جمعہ کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۳۷؍ ہو گئی ہے اور تقریباً ۷۰؍ افراد زخمی ہیں۔ یہ حملے حزب اللہ کے اراکین کے زیر استعمال پیجرس میں دھماکے کے بعد ہوئے جس میں درجنوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ حزب اللہ نے اسرائیل پر بوبی ٹریپنگ اور آلات کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانے کا الزام لگایاہے لیکن اسرائیلی حکام نےاس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK