نومبر۲۰۱۶ء میں مرکزی حکومت کی جانب سے نوٹ بندی کا حکم جاری ہوا تھا اور اُس وقت کی ۵۰۰؍اور ۱۰۰؍روپے کی نوٹ بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
EPAPER
Updated: March 11, 2025, 10:20 AM IST | Nadeem Asran | Mumbai
نومبر۲۰۱۶ء میں مرکزی حکومت کی جانب سے نوٹ بندی کا حکم جاری ہوا تھا اور اُس وقت کی ۵۰۰؍اور ۱۰۰؍روپے کی نوٹ بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
نومبر۲۰۱۶ء میں مرکزی حکومت کی جانب سے نوٹ بندی کا حکم جاری ہوا تھا اور اُس وقت کی ۵۰۰؍اور ۱۰۰؍روپے کی نوٹ بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ کولہار پور کے رہنے والے چند افراد اپنے پاس موجود نوٹوں کو جمع کرانے کی تیاری کر رہے تھے کہ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کا چھاپہ پڑ گیا تھا اور وہ نوٹ ضبط کر لئے گئے تھے۔ ان افراد نے بامبےہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کرتے ہوئے ان نوٹوں کو ریزرو بینک آف انڈیا کے ذریعے قبول کرنے کی اپیل کی تھی۔ وہیں بامبے ہائی کورٹ نے درخواست کا جائزہ لینے کے بعد ریزرو بینک آف انڈیا کو اسے قبول کرنے کا فرمان جاری کیا ہے۔
نوٹ بندی کے اعلان بعد ۲۰؍ لاکھ روپے کی خطیر رقم بینک میں جمع کرنے سے قبل انکم ٹیکس کے چھاپہ کے سبب ضبط ہونے والی رقم کے واپس ملنے اور آر بی آئی کے ذریعہ نوٹ نہ لئے جانے کے خلاف کولہا پور کے ایک گروپ نے اودئے شنکر سمدرالا کے توسط سے بامبے ہائی کورٹ کی ۲؍ رکنی بنچ کے جسٹس اے ایس چندورکر اور جسٹس ایم ایم ستیہ کے روبرو عرضداشت داخل کی تھی۔ دفاع وکیل نے کورٹ کو بتایا کہ حکومت نے نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا۔ اس درمیان میرے موکل نے جب دسمبر میں ۲۰؍ لاکھ کی رقم بینک میں جمع کرنے کا ارادہ کیا، اس وقت اچانک انکم ٹیکس نے چھاپہ مار کر نوٹ ضبط کر لیا تھا۔
کورٹ کو یہ بھی بتایا گیا کہ قانونی کارروائی کے بعد پولیس نے رقم واپس بھی کردی تھی لیکن جب بینک میں نوٹ جمع کرانے گئے تو آربی آئی نے ممنوعہ نوٹوں کو جمع کرانے کی تاریخ گزر جانے کا عذر پیش کرتے ہوئے نوٹ لینے سے انکار کر دیا۔
تاہم عرضداشت کے وکیل نے کہا کہ سریل نمبر کو نوٹ کرنے کا کام پولیس اور انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کا تھا اس میں ہماری کوئی غلطی نہیں ہے۔ بعد ازیں کورٹ نے دونوں فریق کی جرج سننے کے بعد آر بی آئی کو درخواست گزاروں کے پاس موجود ممنوعہ نوٹوں کو قبول کرنے کا فرمان جاری کیا۔