• Sun, 06 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

چمبور کے کالج میں حجاب پر پابندی کے فیصلہ میں مداخلت سے ہائی کورٹ کاانکار

Updated: June 26, 2024, 11:44 PM IST | Nadeem Asran | Mumbai

عدالت نے پیش کردہ جواز پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے عرضی خارج کردی۔ طالبات اور ان کےوکیل کا فیصلے کی کاپی کا جائزہ لینے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع ہو نے کا ارادہ

Chambor`s NG Acharya College where students approached the court against the decision to ban hijab.
چمبور کا این جی آچاریہ کالج جہاں حجاب پرپابندی کےفیصلے کے خلاف طالبات نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔

چمبور کےاین جی  آچاریہ اور مراٹھے کالج  کی بی ایس سی کمپیوٹر سائنس کے ۹؍ طالبات کو اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب بامبے ہائی کورٹ نے  کالج انتظامیہ کی جانب سے  نافذ کئے گئے ڈریس کوڈ کے خلاف داخل کردہ عرضداشت کو خارج کر دیا ۔ عدالت کے اس فیصلہ سے جہاں طالبات مطمئن نہیں  ہیں   وہیں انہوںعدالت کے سنائے گئے فیصلے کا مکمل جائزہ اور تجزیہ کرنے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کا بھی اشارہ دیا ہے ۔
   ۹؍ طالبات کی جانب سے کالج انتظامیہ کے ذریعہ تعلیمی سال کے شروع ہوتے ہی اچانک صرف ایک سماج یعنی مسلم طلبہ پر مخصوص لباس کا استعمال کرنے پر عائد کی جانے والی پابندی کے خلاف    داخل کردہ اپیل پر   جہاں بامبے ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ کے جسٹس اتل ایس چندورکر اور جسٹس راجیش ایس پاٹل نے دونوں فریق کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا ۔ وہیں منگل کو یہ کہتے ہوئے طالبات کی درخواست کو خارج کر دیا کہ ’’ عدالت مذکورہ  معاملہ میں طالبات کے پیش کردہ جواز سے مطمئن نہیں ہے ۔‘‘عدالت نے کالج کے فیصلے میں مداخلت سے انکار کردیا۔
  عدالت کے اس فیصلہ پر طالبات کی جانب سے پیروی کرنے والے وکیل الطاف خان نے اس نمائندے سے بات چیت کے دوران کہا کہ’’ کورٹ کے روبرو ہونے والی گفتگو میں یہ با ور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ طلبہ بالغ ہیں اور آئین میں دیئے گئے حقوق کے مطابق اپنی پسند کا لباس پہن سکتے ہیں اور یہ کہ جب انہیں برقع ، حجاب ، نقاب ، چوڑی ، ٹوپی ، کرتا پائجامہ پہننے پر کوئی اعتراض نہیں ہے تو کالج انتظامیہ اس پر پابندی لگانے پر کیوں بضد ہے بلکہ پابندی عائد کر دی ہے ۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’گزشتہ ۳؍ یا ۴ ؍ برس سے طالبات اسی کالج میں نقاب ، حجاب  اور برقع پہن کر جاتی رہی ہیں لیکن اچانک امسال ایسا کیا ہوگیا کہ کالج انتظامیہ نے صرف ایک مخصوص سماج کے طلبہ کے لباس پر پابندی عائد کردی۔‘‘ 
 انہوںنے مزیدکہا کہ کورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ مذکورہ  کالج ممبئی یونیورسٹی کے اور حکومت کے زیر سرپرستی چلایا جارہا  ہے ۔کالج نےمسلم طلبہ کے مخصوص لباس پر جو پابندی عائد کی ہے ، وہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ کالج انتظامیہ کو اس کا اختیار بھی نہیں ہے ۔ 
  طالبات کے بقول ایک طرف تو کالج انتظامیہ ہندوستانی اور غیر ملکی لباس پہننے کی اجازت دے رہا ہے جبکہ دوسری طرف نقاب یا حجاب جو ہمارے مذہبی عقیدے اور قرآن و حدیث کے مطابق  عمل ہے، اس  پرپابندی عائد کررہا ہے۔ اس طرح ہمارے آئینی حقوق سے ہمیں محروم کیا گیا ہے ۔
   کالج انتظامیہ کی جانب سے   وکیل انل انتورکر نے کہا کہ کہ ڈریس کوڈ  سب پر یکساں طور پر نافذ ہوتا ہے ، جہاں تک سکھوں کی پگڑیوں کا سوال ہے، آئین کی دفعہ ۲۵؍ انہیں مذہب کے بنیادی حق کا استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے ۔ 
 کالج نے عرضداشت کےقابل جرح ہونے اور اسے برقرار رکھنے پر بھی سوال اٹھایا تھا ۔
 ہائی کورٹ کی  دو رکنی بنچ نے  فریقین کی باتیں سننے کے بعد داخل کردہ عرضداشت کو غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے اس معاملہ میں   مداخلت کرنے سے انکار کردیا اور اپیل کو خارج کر دیا ہے ۔
 عرضی گزار طالبات کے وکیل الطاف خان نے ہائی کورٹ کے   فیصلہ کا تجزیہ کرنے اور جائزہ لینے کے بعد جلد ہی سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کی اطلاع دی  ۔

chembur Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK