ہر سال جلوس مسجد کے گیٹ پر ٹھہرتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے ، اس بار اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے اورگیٹ توڑ دیا گیا، پولیس نے صرف نعرے بازی کا معاملہ درج کیا۔
EPAPER
Updated: March 15, 2025, 11:28 AM IST | Inquilab News Network | Ratnagiri
ہر سال جلوس مسجد کے گیٹ پر ٹھہرتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے ، اس بار اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے اورگیٹ توڑ دیا گیا، پولیس نے صرف نعرے بازی کا معاملہ درج کیا۔
رتنا گیری ضلع کے راجا پور تعلقے میں ہولی سے ایک روز قبل نکالے جانے والے جلوس نے مقامی مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی اشتعال انگیز نعرے لگائے اور مسجد کا گیٹ توڑ دیا گیا۔ خیر سے مسلمانوں نے گیٹ پر کھڑے ہوکر شرپسندوں کو اندر داخل ہونے سے روکا اور پولیس نے بروقت حالات کو قابو میں کیا۔ یاد رہے کہ مقامی سطح پر یہ روایت رہی ہے کہ ہر سال یہ جلوس مسجد کے گیٹ کے آگے ٹھہرتا ہے اور سلامی دے کر آگے نکلتا ہے لیکن اس بار کچھ لوگوں نے شر انگیزی کی کوشش کی۔
بدھ کی شام ہولی سے پہلے منائے جانے والے شیمگا مہوتسو کے موقع پر ’، مداچی مرونوک‘ ( مد کا جلوس) نکالا گیا۔ یہ جلوس راجا پور کے ساکھلکر واڑی علاقے سے نکلتا ہے اور ۲؍ کلو میٹر دور واقع دھوپیشور مندر تک جاتا ہے۔ جلوس میں شامل کچھ لوگ درخت کا کٹا ہوا ایک لمبا سا تنا اٹھائے رہتے ہیں رسم کے مطابق جس پر سیندر وغیرہ لگایا جاتا ہے۔ راستےمیں جواہر چوک پر واقع جامع مسجد کے سامنے جلوس تھوڑی دیر کیلئے ٹھہر جاتا ہے۔ جلوس میں اٹھائے ہوئے درخت کے تنے کے ایک سرے سے مسجد کے زینے کو چھوا جاتا ہے۔ اس بار بھی یہی ہونے والا تھا لیکن اچانک جلوس میں شامل کچھ لوگ اشتعال انگیز نعرے لگانے لگے اور انہوں نے مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ بعض رپورٹ میں کہا گیا کہ انہوں نے وہاں گلال بھی اڑایا۔ مسجد میں اس وقت نماز ہو رہی تھی اس لئے بڑی تعداد میں مصلیان اندر موجود تھے۔ انہوں نے فوراً جو لوگ اندر گھس رہے تھے انہیں باہر دھکیلا اور گیٹ بند کر دیا۔
اطلاع کے مطابق کچھ دیر بعد جلوس واپس وہاں آیا اور اب کی بار درخت کا وہ تنا جو جلوس میں رسم کے طور پر لے جایا جاتا ہے اسے مسجد کے گیٹ پر مارا گیا اور گیٹ کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ پولیس وہاں موجود تھی جو جلوس کی اس حرکت کو روکنے میں ناکام رہی۔ کسی طرح پولیس نے معاملے کو قابو کیا۔ یاد رہے کہ اس واقعے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہو رہا ہے اور اس پر تنقیدیں بھی ہو رہی ہیں لیکن ’دی ہندو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق مقامی پولیس نے گیٹ توڑے جانے کے واقعے کی تردید کی ہے۔ رتنا گیری کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس دھننجے کلکرنی کا کہنا ہے ’’ کوکن کی روایت مختلف ہے۔ ہر سال یہاں ہولی کے موقع ہر ’ مداچی مرونوک‘ ( جلوس) نکالی جاتی ہے جو کہ مسجد کے گیٹ تک آتی ہے اور مسجد کے زینے کو چھو کر آگے بڑھ جاتی ہے۔ اس جلوس کا مسلم سماج بھی استقبال کرتا ہے۔ لیکن بدھ کی رات کچھ لوگوں نے نعرے بازی شروع کر دی اور اشتعال انگیزی کرنے لگے۔ ہم نے ان لوگوں کے خلاف مہاراشٹر پولیس ایکٹ کی دفعہ ۱۳۵؍ کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔ ‘‘
پولیس کا بیان کچھ، عینی شاہدین کا بیان اور
ضلع ایس پی کا کہنا ہے کہ ’’ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ اس واقعے کا جعلی ریل وائرل کر رہے ہیں۔ ہم نے وہ ریل ڈیلیٹ کروا دیا ہے۔ حالات اب قابو میں ہیں اور یہاں نظم ونسق کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ حالانکہ مقامی لوگوں نے اس واقعے کی تصدیق کی ہے۔ واقعہ کے وقت مسجد میں موجود ایک شخص نے بتایا کہ ’’ ہر سال جلوس کے ساتھ درخت کا تنا مسجد کے گیٹ تک لایا جاتا ہے۔ ہم اسے دیکھنے جاتے بھی ہیں لیکن اس بار انہیں پتہ نہیں کیا ہو گیا جو انہوں نے تنے کو گیٹ کے اندر لانے کی کوشش کی۔ پہلی بار میں انہوں نے گیٹ کو توڑ دیا اور اندر داخل ہونے کی کوشش کی۔ ہم نے انہیں دھکیلا اور گیٹ بند کر دیا۔ ‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ ’’دوسری بار انہوں نے پھر تنے کو جارحانہ طور پر گیٹ پر مارا جس میں ۲؍ افراد زخمی ہوئے۔ ‘‘
شر پسندوں پر کارروائی کا مطالبہ
اس دوران اویس پیچکر نامی ایک مقامی ایڈوکیٹ نے ضلع ایس پی کے نام خط لکھا ہے اور خاطیوں پر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے خط میں لکھا ہے ’’ ہولی ؍ شیمگا مہوتسو کے دوران جامع مسجد کے گیٹ پر ۳؍ یا ۴؍ بار پر حملہ کیا جو کہ کوکن کے ہندو مسلم اتحاد پر حملہ ہے۔ ‘‘ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ۲۵؍ تا ۳۵؍ افراد جنہوں نے مسجد پر حملے کی کوشش کی ان کے خلاف قانونی کارروائی ( انہوں نے دفعات کا بھی تذکرہ کیا ہے )کی جانی چاہئے اور انہیں فوری طور پر گرفتار کیا جانا چاہئے۔ ‘‘ انہوں نے انتباہ دیا ہے کہ اگر ان کی شکایت پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا تو وہ ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔
اس دوران مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر اسدالدین اویسی نے بھی ٹویٹ کرکے واقعے کی مذمت کی ہے اور وزیر دیویندر فرنویس سے سوال کیا ہے۔ اویسی نے کہا ہے’’ یہ بڑی شرمناک بات ہے کہ پولیس کی موجود گی میں مسجد پر حملہ کیا گیا۔ ‘‘