• Sat, 26 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

جبالیہ میں نہتے فلسطینیوں کا ہولناک قتل عام

Updated: October 26, 2024, 10:03 AM IST | Gaza

۲۰۰؍ سے زائد شہید،۱۰؍ عمارتیں مکمل طور پر تباہ ،اسپتال کو بھی نشانہ بنایا،خان یونس میں ایک ہی خاندان کے ۱۳؍ بچوں سمیت ۳۸؍ افراد کی شہادت۔

Israel has turned the buildings of Jabalia area into ruins in its attack. Photo: Agency
اسرائیل نے اپنے حملے میں جبالیہ علاقے کی عمارتوں کو کھنڈر میں تبدیل کردیا ہے۔ تصویر: ایجنسی

اسرائیلی فورسیز کی جانب سے غزہ اور لبنان میں خون کی ہولی کھیلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس  دوران اسرائیل کی  وحشی فوج نے  جبالیہ  علاقے پر انتہائی وحشیانہ بمباری کرتے ہوئے ۲؍ سو سے زائد افراد کو شہید کردیا جبکہ ۱۰؍ عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔  غیر ملکی میڈیا کے مطابق  اسرائیلی فورسیز کی خون کی بھوک یہیں پر نہیں تھمی بلکہ انہوں نے کمال عدوان اسپتال پر بھی دھاوا بول دیا جس کی وجہ سے بچوں اور مریضوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔فلسطینی  حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل شمالی غزہ میں بدترین قتل عام کررہاہے ۔  اسرائیلی طیاروں نے جبالیہ کے ساتھ ساتھ  خان یونس پر بھی وحشیانہ بمباری کی جس کے نتیجے میں ۳۸؍ افراد ہلاک ہو گئے ۔ یہ سبھی ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں ۱۳؍ بچے بھی شامل ہیں۔   
اب تک کا سب سے خونیں حملہ؟
شمالی غزہ میں واقع جبالیہ رفیوجی کیمپ پر کیا گیا یہ اب تک کا سب سے خونیں حملہ قرار دیا جارہا ہے جس میں ایک ہی جھٹکے میں ۱۵۰؍ افراد کی موقع پر ہی موت ہو گئی جبکہ ۵۰؍ سے زائد افراد نے  زخموں کی تاب نہ لاکر اسپتال میں دم توڑ دیا۔ اب بھی ۷۰؍ سے زائد زخمیوں کا علاج جاری ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ ان میں سے بھی کئی زخمیوں کی حالت انتہائی نازک ہے۔ غزہ سول ڈیفنس کے مطابق  اسرائیلی فوج نے جبالیہ میں رہائشی علاقے پر بمباری کی۔ یہ بمباری اس مقام پر کی گئی جہاں پہلے ہی بمباری کے متاثرین موجود تھے۔ غزہ میں سرکاری میڈیا آفس کے ڈائریکٹر اسماعیل ثابتہ نے کہا کہ اسرائیلی فوج کے طیارے پوری غزہ پٹی میں ہر گھنٹے کے بعد قتل عام کر رہے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اسرائیلی فوج سے پناہ گاہوں اور نقل مکانی کے مراکز پر بمباری تیز ہو رہی ہے جبکہ جبالیہ اور اس کے گردونواح پر وحشیانہ بمباری جاری ہے۔ اسرائیلی بمباری میںشمالی غزہ کے پولیس ڈائریکٹر شہیدبھی ہو گئے ہیں۔
خان یونس پر بھی حملے 
اسرائیلی حملے صرف جبالیہ پر ہی نہیں بلکہ خان یونس پر بھی جاری ہیں۔ یہاں اسرائیل نے المنارہ علاقے میں حملہ کرتے  ہوئے ۱۳؍ بچوں سمیت ۳۸؍ افراد کو شہید کردیا ۔  شہید ہونے والے تمام افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے بتایا جارہا ہے۔ اس حملے کی وجہ سے اسرائیلی فوج کے خلاف شدید ناراضگی بھی پائی جارہی ہے۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہےکہ اسرائیلی  طیاروں نے ایک عمارت پر بم برسائے جس سے عمارت گرگئی اور آس پاس کی  عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا جس سے مرکزی عمارت میں موجود افراد سمیت آس پاس کی عمارتوں میں موجود دیگر افراد کی بھی شہادتیں ہوئیں۔
اسرائیل فلسطینیوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کررہا ہے
فلسطین میں جاری جنگ میں اسرائیلی فوج نے نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان  پر مظالم ڈھانے کے  لئےنیا حربہ استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔امریکی  نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے حالیہ لڑائیوں  کے دوران فلسطینی شہریوں کو مجبور کیا کہ وہ غزہ میں ممکنہ طور پر بارودی  سرنگوں اور دھماکہ خیز مواد سے بھری عمارتوں میں داخل ہوں تاکہ اسرائیلی  فوجی نقصان سے محفوظ رہیں۔اسرائیلی دفاعی فورسیزکے ایک  فوجی اور ۵؍ فلسطینی قیدیوں نے انکشاف کیا کہ انہیں ’انسانی ڈھال‘ کے  طور پر استعمال کیا گیا۔ایک اسرائیلی فوجی نے بتایا کہ ان کے یونٹ میں ۲؍ فلسطینی قیدیوں کو جان بوجھ کر اس مقصد کے  لئےرکھا گیا تھا کہ انہیں  خطرناک علاقوں میں بھیجا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل عام طور پر اسرائیلی یونٹس میں پایا جاتا ہے اور اسے ’موسکیٹو پروٹوکول‘ (یعنی مچھر  پروٹوکول) کے نام سے پکارا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ قیدیوں کو عمارتوں میں داخل ہونے کا حکم دیا جاتا ہےتاکہ اگر کوئی بم نصب ہو تو وہ صرف فلسطینی  قیدیوں کو نقصان پہنچائے اور ان کے اپنے فوجی محفوظ رہیں۔فوجی نے بتایا کہ ان کے یونٹس نے پہلے معیاری طریقہ کار اپنایا، مثلاً کتوں کو بھیجنا یا بکتر بند بلڈوزر کے ذریعے عمارت میں سوراخ کرنا لیکن اس سال ایک انٹیلی جنس  افسر ۱۶؍ اور ۲۰؍سالہ فلسطینی لڑکوں کو قید کرکے لایا اور انہیں فوجیوں کے آگے بھیجنے کی ہدایت دی ۔ اب یہی طریقہ اسرائیلی فوجی دیگر علاقوں میں بھی اپنانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ ان کا جانی نقصان نہ ہو ۔اس طریق کار کے سامنے آنے کے بعد اسرائیلی حکومت پر شدید تنقیدیں بھی ہو رہی ہیں لیکن اسرائیلی  پوری ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنی شیطنت پر ڈٹا ہوا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK