اتر پردیش میںوقف بل کے خلاف احتجاجاً سیاہ پٹی باندھ کر جمعہ کی نماز کیلئے آنے والے مسلمانوں کا انتظامیہ کے نوٹس پر رد عمل
EPAPER
Updated: April 13, 2025, 10:11 AM IST | Muzaffarnagar
اتر پردیش میںوقف بل کے خلاف احتجاجاً سیاہ پٹی باندھ کر جمعہ کی نماز کیلئے آنے والے مسلمانوں کا انتظامیہ کے نوٹس پر رد عمل
وقف ترمیمی بل کے خلاف علامتی احتجاج کے دوران جمعۃ الوداع اور عید کی نماز کے دوران بازو پر سیاہ پٹیاں باندھنے پر ۳۰۰؍ سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف کیس درج کئے جانے کے ایک ہفتہ بعد، اتر پردیش کے مظفر نگر میں پولیس حکام نے ان مقدمات کے اندراج اور جاری کردہ نوٹس کو قانونی قراردیا ہے ۔ اس کے علاوہ حکام نے اس بات کی تصدیق بھی کی ہے کہ احتجاج کے اس معاملے میں کسی اضافی افراد کی شناخت نہیں کی گئی ہے۔مظفر نگر کے ایس ایس پی ابھیشیک سنگھ نے کہا’’جو نوٹس جاری کیا گیا وہ قانونی تھا‘‘، انہوں نے مزید کہا’’ہم نے کوئی نیا نوٹس نہیں دیا ہے۔‘‘
سٹی مجسٹریٹ وکاس کشیپ نے مسلم مردوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں۱۶؍ اپریل۲۰۲۵ء کو سٹی مجسٹریٹ کے سامنے حاضر ہونے اور ۲؍ لاکھ روپے تک کے بانڈ جمع کرانے کی ہدایت دی ہے۔نیوپورٹل مکتوب میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق اس نوٹس پرتنقیدیں کی جارہی ہیں ۔ ناقدین بشمول مقامی اور سول سوسائٹی گروپس کا استدلال ہے کہ یہ آزادی اظہار پر قدغن کے مترادف ہے اور غیر منصفانہ طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے والا ہے ۔ نوٹس موصول ہونے والے افراد میں سے ایک نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ وہ ایک وکیل کی تلاش میں ہیں۔انہوں نے کہا ’’ہمیں ۱۶؍اپریل کو عدالت میں پیش ہونے کیلئے کہا گیا ہے۔ ہم نے وکیل کی تلاش شروع کر دی ہے۔‘‘
انہوں نے اس خدشہ کا بھی اظہار کیا کہ ’’اگر مجسٹریٹ نوٹس کو منسوخ بھی کر دیتا ہے تو سب سے بڑا مسئلہ بانڈ کا ہے۔ اگر ضلع میں ایک سال کی مدت میں کچھ ہوتا ہے تو ہمیں اٹھایا جا سکتا ہے۔‘‘نوٹس میں الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے نماز کے بعد دوسروں کو اکسانے اور مشتعل کرنے کی کوشش کی جس سے امن عامہ کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔
نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جنہیں نوٹس دیاگیا ہے وہ مستقبل میں عوام کو بھڑکا سکتے ہیں اور غلط معلومات پھیلا کر نقض امن کا باعث بن سکتے ہیں۔‘‘ جنہیں نوٹس دیاگیا ہے انہوں نے ’ مکتوب ہندی ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انتظامیہ کی کارروائی کو مکمل طور پر غیر منصفانہ قرار دیا اور کہا کہ نماز جمعہ کے بعد ایسی کوئی سرگرمی نہیں ہوئی جس سے امن وامان میںخلل پڑتا ہو۔
واضح رہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈنے وقف بل کی مخالفت میں ملک بھر کے مسلمانوں سے `الوداع جمعہ کے دن بازو پر سیاہ پٹیاں باندھ کر نماز کیلئے جانے کی اپیل کی تھی ۔ا س پر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے عمل کیا تھا ۔ رپورٹ کے مطابق سروت گاؤں کے مکینوں نے دعویٰ کیا کہ انتظامیہ نے بغیر کسی ثبوت اور تحقیقات کے یہ کارروائی کی ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں جو طویل عرصے سے گاؤں میں نہیں رہے ہیں۔اسی طرح اتر پردیش کے سیتا پور کے ضلعی انتظامیہ نے تمبور ٹاؤن کے ۶۰؍مسلمانوں کے خلاف بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے پرمقدمہ درج کیا ہے۔
’’نماز جمعہ کے بعد کوئی ہنگامہ ومظاہرہ نہیںہوا‘‘
مکتوب ہندی نے نوٹس وصول کرنے والوں سے بات چیت کی ۔ انہوں نے انتظامیہ کی کارروائی کو سراسر غلط قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد کوئی خلل ڈالنے والی سرگرمی نہیں ہوئی ۔ نماز کے بعد کوئی ہنگامہ یا مظاہرہ نہیں ہوا جس سے امن کی کوئی خرابی ہو سکتی ہو۔
انتظامیہ نے سروت گاؤں کے رہائشی شبیر کو نوٹس جاری کیا ہے۔ انہوں نے پولیس کی کارروائی کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ پرامن احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے، اس بل کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہو چکے ہیں اور اب بھی ہو رہے ہیں، اگر ملک کی پارلیمنٹ میں اراکین پارلیمنٹ بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر بل کی مخالفت کر رہے ہیں تو ہمارا احتجاج غلط کیسے ہو گیا؟
بغیر تحقیقات کے کارروائی کی جارہی ہے
انتظامیہ نے نعیم تیاگی کو نوٹس بھی جاری کیا ہے۔ وہ مدرسہ محمودیہ کے منیجر ہیں۔۵۰؍ سالہ نعیم نے بتایا کہ میں نے بازو پر سیاہ پٹی نہیں باندھی تھی، نماز کیلئے مسجد گیا تو کچھ لڑکوں کو بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھے ہوئے دیکھا، جب میں نے استفسار کیا تو مجھے احتجاج کے بارے میں معلوم ہوا، ہزاروں لوگ نماز جمعہ کے لیے مسجد میں آئے، کچھ نے بازو پر سیاہ پٹیاں باندھی ہوئی تھیں، کچھ نے نہیں، انتظامیہ بغیر تحقیقات کے ایکشن لے رہا ہے جو غلط ہے ۔
شبیر نے کہا کہ وہ نوٹس کی منسوخی کیلئے عدالت میں قانونی چارہ جوئی کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا ’’ مجھے ملک کے عدالتی نظام پر اعتماد ہے، مجھے امید ہے کہ عدلیہ اس معاملے میں انصاف فراہم کرے گی۔‘‘