Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’مجھے یقین ہےکہ ہندوستان کے عوام کی اکثریت نہ تو عدم روادار ہے نہ تشدد پسند ‘‘

Updated: April 14, 2025, 12:10 PM IST

سی اے اے کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں گرفتار کی گئیں گلفشاں فاطمہ کوقیدمیں ۱۶؍ اپریل کو۵؍ سال مکمل ہوجائینگے، اسی تناظر میں انہوں نے جیل سے یہ خط لکھا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

رات کو میں ٹی وی پر خبریں اور مباحثے دیکھتی ہوں ۔ اس سے نہ صرف ظاہر ہوتا ہے کہ بلکہ ہر دانشمند پریہ ثابت ہوجاتا ہےکہ چیخ پکار کرنے والا مین اسٹریم میڈیا عوام کو یہ باورکرانے پر تلا ہوا ہے کہ ایک مخصوص فرقے کے ذریعے آپ کا استحصال کیاجارہا ہے نہ کہ کسی آمر سیاسی گروہ کے ذریعے ۔ متعصب میڈیا یہ بتاتا ہے کہ آج بھی آپ کے ساتھ جو کچھ بھی ناگوار ہوتا ہے اس کی وجہ صرف ایک مخصوص کمیونٹی ہے۔ تمام اقلیتوں کو ’ایک مخصوص کمیونٹی ‘کی طرح کھلے عام بدنام نہیں کیا جاتا۔ ان سب کے باوجود، میں پختہ یقین رکھتی ہوں کہ ہندوستان کے عوام کی اکثریت نہ تو عدم روادار ہے اور نہ ہی تشدد پسند۔ مجھے یہ د یکھ کر اطمینان ہوتا ہےکہ اس انتہائی پولرائزڈ(منقسم) دنیا میں بھی کچھ لوگ ہیں جو اتحاد اور استحکام کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ ایک اور بات مجھے محسوس ہوئی کہ مذہب اور سیاست ہمیشہ متوازی چلتے ہیں۔ 
پچھلی بار کمرہ عدالت میں اپنے والد کو ہکلاتے ہوئے دیکھ کر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو اتنی مشکل کب سے ہونے لگی؟ انہوں نے دھیمی آواز میں کہا ’’ہمیشہ ڈر کا احساس رہتا ہے جیسے ابھی کچھ بُرا ہونے والا ہے، اس لئے بولتے بولتے اٹک جاتا ہوں۔ ‘‘ان کے الفاظ نے میرے ذہن میں جگہ بنالی ہے اور وقفے وقفے سےذہن کے پردے پر نمودار ہوتےرہتے ہیں ۔ جب میرے والدین کو ایسے کسی سیمینار یا پروگرام میں شرکت کیلئے مدعو کیا جاتا ہے جس کا مقصدہماری جدوجہد کے ساتھ اظہار یکجہتی ہو تو یہ دیکھ کر کہ مقررین (ان حالات میں بھی) اتحاد، امن اور انصاف کیلئے آواز اٹھانے اور جبر، شیطنت نیز ناانصافی کے خلاف بولنے کی ہمت کرتے ہیں ، وہ اپنا تناؤ کچھ وقت کیلئے کم ہوتا محسوس کرتے ہیں۔ ان کی حمایت کا سب سے قابل تعریف پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ہمیں دیکھا تک نہیں، ذاتی طور پر جانتے بھی نہیں، اس کے باوجود، ایک مشترکہ مقصد کیلئے ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ سچ کہوں تو میں ایسے لوگوں کی بے لوث محبت حاصل کر کے بہت خوش ہو جاتی ہوں، چاہے ان کا نظریہ مختلف ہویا وہ کسی ایک نظریے کے حامی ہوں، چاہے ان کا عقیدہ ومذہب مختلف ہویاوہ باہم متفق ہوں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو انسانیت اور متحدہ ہندوستان کے مفاد میں اختلاف رائے کو تنازع میں تبدیل نہیں ہونے دیتے۔ یہ خاص طور پر ’ایک مخصوص کمیونٹی ‘کی طرف سے زبردست احترام اور محبت کے مستحق ہیں۔ 
آنے والی عید الفطر یہاں پر منائی جانے والی میری چھٹی عید ہوگی۔ اس دن کیلئے میں نے کاجل اور کچھ زیورات خریدے ہیں۔ میں (تہوار) منانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتی، چاہے وہ رکشا بندھن ہو، خواتین کا دن ہو، ہولی ہو یا ایسٹر وغیرہ۔ جب میں راکھی باندھتی ہوں، تو میں اپنے ساتھی قیدیوں سے کہتی ہوں کہ وہ راکھی کے بدلے مجھے ...... سے بچائیں ۔ در حقیقت میں خودکو تہواروں کے خوشگوار ماحول سےمستفیض کرنے کے ہر موقع کا فائدہ اٹھاتی ہوں۔ چونکہ میں حقیقت کوپوری طرح قبول کرنے پر یقین رکھتی ہوں تو فکر کس بات کی؟ اگر میں باہر ہوتی توبھی ایسا ہی کرتی۔ حقیقت یہ ہے کہ میں یہاں جیل میں ہوں۔ اب یہ صرف میری ذمہ داری ہے کہ میں یہ دیکھوں کہ میں اپنے ذہن اور روح کی رہنمائی کس سمت میں کرسکتی ہوں۔ کبھی کبھی میں خود کو فلسفی سمجھنے لگتی ہوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ قید نے مجھے مزید روحانی بنا دیا ہے۔ میری تمنا ہےکہ اپنے آپ کو مذہبی سمجھنے والے بھی روحانیت کے راستے کی تلاش کریں ۔ روحانی ہونے کامطلب یہ نہیں ہے کہ پھر کوئی درد، مایوسی اور بدگمانی کا غلبہ نہیں ہوتا۔ یہ سب واقعی ہوتا ہے۔ میں دیوانہ وار آزادی کی آرزو رکھتی ہوں اور رہائی کی بے یقینی کی شکل میں جس دردانگیز تاریک ماحول میں گھری ہوئی ہوں، اسے محسوس کرتی ہوں، لیکن (ان حالات) نے مجھے زندگی کی نزاکت کو سمجھنے میں مدد کی ہے۔ پچھلے مہینے میں ویویکانند ساہتیہ ہندی میں پڑھ رہی تھی۔ مجھے ان کے بہت سے خیالات بہت اچھے لگے۔ ہمیں ان کے نظریات کو ایک وسیع تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے جو ممکنہ طور پر عوام کو اس بارے میں قائل کرسکتے ہیں کہ اختلافات اور تنوع کی خوبصورتی کیا ہے۔ 
آخر میں ، میں اپنے خاندان، دوستوں، وکلاء اور ہر اس شخص کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا بلکہ پانچ سال کی قید کے دوران میرے لئے تسلی، یکجہتی اور تعاون کے ستون بن کر میرے ساتھ کھڑے رہے۔ ان کی موجودگی اور محبت کے بغیر یہ سفر انتہائی تباہ کن ہوتا۔ 
شکر ہےکہ ۱۶؍ اپریل ۲۰۲۵ء کو میں جیل کی زندگی کے پانچ سال مکمل کرلوں گی۔ میں اس دن کو جدوجہد کے انتہائی عجیب و غریب حالات میں اپنی بقا کی یاد کے طورپر بھی مناؤں گی۔ اگرچہ قید نے میرے جسم کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا لیکن اس نے میری ذہنی صحت کو متاثر کیا ہے۔ یادداشت برقرار رکھنے کی طاقت اس بری طرح سے متاثر ہوئی ہےکہ میں اپنی ماں کو اکثر فون کرنا بھی بھول جاتی ہوں۔ میں کچھ کرنے کیلئے کہیں جا رہی ہوتی ہوں تو بھول جاتی ہوں کہ میں کہاں اور کس کام سے جارہی تھی۔ پھر کیا کروں، میں تو بس اس حالت پر ہنس دیتی ہوں۔ اس دوران فیض کی شاعری میرے بہت کام آتی ہے۔ جب میں خود کو ڈوبتی ہوئی محسوس کرتی ہوں، میں دوتین دن تک ان کی شاعری ہی پڑھتی رہتی ہوں، ا س طرح سارے احساسات فضا میں تحلیل ہوتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ 
چلو آؤ تم کو دکھائیں ہم جو بچا ہے مقتل شہر میں 
یہ مزار اہل صفا کے ہیں یہ ہیں اہل صدق کی تربتیں 
مری جان آج کا غم نہ کر کہ نہ جانے کاتب ِ وقت نے
کسی اپنے کل میں بھی بھول کر کہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں 
(بشکریہ، دی وائر)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK