• Tue, 11 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ میں انجینئر ہوں، کوئی غلام نہیں ہوں‘‘، سرکاری عہدیدار کا استعفیٰ

Updated: February 11, 2025, 10:52 AM IST | Usmanabad

عثمان آباد میں تعینات محکمۂ تعمیرات عامہ کے ایک جونیئر انجینئر کے خط سے محکمے کے اعلیٰ افسران میں کھلبلی۔

The Public Works Department engineer has leveled serious allegations against senior officers. Photo: INN.
محکمہ تعمیرات عامہ کے انجینئر نے اعلیٰ افسران پر سنگین الزامات عائد کئے ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

محکمہ ٔ تعمیرات عامہ کے ایک جونیئر انجینئر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اپنے استعفے میں اس نے واضح طور پر یہ الفاظ استعمال کئے ہیں کہ ’’ میں انجینئر ہوں، غلام نہیں۔ ‘‘ عثمان آباد میں تعینات اس انجینئر کے خط سے محکمہ میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ مستعفی انجینئر کا کہنا ہے کہ انہیں عوامی کام کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا کیونکہ زیادہ تر انہیں اعلیٰ حکام کی خاطر مدارت پر مامور کیا جاتا ہے۔ 
اطلاع کے مطابق عثمان آباد میں  محکمۂ تعمیرات عامہ کے جونیئر انجینئر روہن کامبلے نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری کو گزشتہ دنوں اپنا استعفیٰ سونپ دیا۔ اس خط کی اطلاع عام ہوتے ہی محکمۂ تعمیرات عامہ میں کھلبلی مچ گئی۔ خط میں کہا گیا ہے کہ’’ جس کام کیلئے میرا تقرر کیا گیا ہے، اس کام کے بجائے دیگر کاموں کا بوجھ مجھ پر ڈالا جاتا ہے۔ چھٹی کے روز بھی گیسٹ ہائوس میں وی آئی پی افراد کی خاطر داری کیلئے دوڑ دھوپ کرنی پڑتی ہے۔ ان کاموں کی وجہ مجھے ذہنی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ ‘‘ 
آگے انہوں نے لکھا ہے’’ کبھی کوئی جج، کبھی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، کبھی کوئی عوامی نمائندہ آکر سرکاری گیسٹ ہائوس میں ٹھہرتا ہے۔ ان کی خاطر داری کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ الیکشن ڈیوٹی، مقابلہ جاتی امتحانات کے انتظامات، پر بھی مامور کیا جاتا ہے۔ عوامی نمائندوں کی میٹنگ میں جوابدہی کیلئے بھی مجھے بھیجا جاتا ہے۔ منترالیہ میں یا عدالت میں کوئی کام ہوتو وہاں بھی مجھے ہی مامور کیا جاتا ہے۔ ان سارے کاموں میں وقت نکل جاتا ہے۔ مجھے اپنا کام ڈیوٹی کے بعد اپنے نجی اوقات میں کرنے پڑتا ہے۔ ‘‘ انجینئر کہتے ہیں ’’ ان کاموں کے علاوہ اعلیٰ حکام مجھے کبھی کسی پروجیکٹ کا تخمینہ تیار کرنے کیلئے کہتے ہیں تو کبھی کسی نجی پروجیکٹ کیلئے کوئی ڈرافٹ تیار کرنے کیلئے کہتے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے کہ ’’ یہ واضح طور پر غلامی ہے۔ اعلیٰ افسران اپنا بوجھ مجھ پر لاد دیتے ہیں۔ میں اسکے خلاف آواز اٹھا سکتا ہوں لیکن اسے ذات پات کا رنگ نہ دیا جائے اسلئے میں دینا بہتر سمجھتا ہوں۔ یہ استعفیٰ میں بطور احتجاج دے رہا ہوں۔ ‘‘ 
یاد رہے کہ سرکاری ملازمین پر اس وقت کافی دبائو ہے اور وہ خود کو ذہنی طور پر ہراساں محسوس کر رہے ہیں۔ اس بات کی شکایت کئی بار آئی ہے لیکن اس طرح خط میں لکھ کر اپنے اعلیٰ حکام کو اب تک کسی نے کھری کھوٹی نہیں سنائی تھی۔ اس خط نے حکام کو ہلا کر رکھ دیا ہے 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK