رُتا اوہاڑ کی وضاحت ،ممبرا کے جلسہ میں خطاب پر ہنگامہ پرکہا کہ اچھے او ربرے کا فرق سمجھارہی تھی
EPAPER
Updated: September 27, 2024, 11:08 PM IST | Iqbal Ansari | Mumbai
رُتا اوہاڑ کی وضاحت ،ممبرا کے جلسہ میں خطاب پر ہنگامہ پرکہا کہ اچھے او ربرے کا فرق سمجھارہی تھی
نیشنلسٹ کانگریس پارٹی( این سی پی۔شرد پوار) کے لیڈر ورکن اسمبلی جتیندر اوہاڑ کی اہلیہ رُتا اوہاڑ (جو کہ خواتین وِنگ کی تھانے ضلع کی صدر بھی ہیں)، کے ذریعے سابق صدر اور معروف سائنسداں اے پی جے عبدالکلام اور مبینہ دہشت گرد اسامہ بن لادن کا حوالہ دینے پر سیاست گرما گئی ہے ۔ کچھ میڈیا میں یہ خبریں گشت کر رہی ہے کہ رُتا اوہاڑ نے ممبرا میں خواتین و لڑکیوں کی رہنمائی کیلئے منعقدہ ایک پروگرام میں اسامہ بن لادن کی سوانح حیات پڑھنے کی اپیل کی اور انہوں نے اس کا موازنہ اے پی جے عبدالکلام سے کیا۔ اس تعلق سے رُتا اوہاڑ نے وضاحت کی ہے کہ مَیں نے طالبات کو اچھے اور برے کی مثال دیتے ہوئے یہ بات کہی تھی لیکن کچھ میڈیا والےاسے غلط طرح سے پیش کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ جمعرات کو ا یم ایس پی فاؤنڈیشن کی جانب سے نور باغ ہال( شملہ پارک، کوسہ) میں منعقدہ پروگرام میں رتا اوہاڑ اور ان کے ساتھ فلم اداکارہ سورابھاسکر نے بھی خطاب کیا تھا۔ یہ پروگرام نوجواں سماجی خدمتگار مرضیہ اشرف (شانو) پٹھان نےمنعقد کیا تھا۔
رتا اوہاڑ نے کیا کہا تھا
جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے رتا اوہاڑ نے کہا تھا کہ ’’اسامہ بن لادن کی سوانح حیا ت پڑھو! جس طریقے سے اے پی جے عبدالکلام ، کلام صاحب بنے اورملک کے صدر جمہوریہ بنے ، وہیں اسامہ بن لادن ایک دہشت گرد بنا۔ وہ دہشت گرد کیوں بنا؟وہ پیدائشی تو دہشت گرد نہیں تھا نا! اسے سماج نے دہشت گرد بنایا۔‘‘
بی جے پی کے لیڈروں کی جانب سے رتا پر
تنقیدیں شروع کر دی گئیں کہ انہوںنے سابق صدر جمہوریہ کا موازانہ اسامہ بن لادن سے کیا ۔
اس تعلق سے رتا اوہاڑ سے رابطہ قائم کرنے پر انہوںنے نمائندۂ انقلاب کو بتایاکہ ’’ خواتین اور بچیوں کو برائی اور اچھائی کا فرق سمجھانے کیلئے مَیں نے اسامہ بن لادن اور اے پی جے عبدالکلام کی مثال دی تھی۔ ایک وہ جو اپنے کارناموں سے دہشت گرد بن گیا اور دوسرے عبدالکلام صاحب نے نہ صرف بڑے سائنس داں میزائل مین بنیں بلکہ صدر جمہوریہ بھی بنیں۔ایسا کیا ہوا تھا کہ اسامہ بن لادن دہشت گرد بن گیا۔ مَیں نے یہ بھی بتایا کہ دہشت گرد بننے کے بعد اسامہ بن لادن کا کیا حشر ہوا ۔‘‘ انہوںنے مزید کہا کہ’’ آج موبائل ، سوشل میڈیا اور ٹی وی کے دور میں پڑھنے کا رجحان ختم ہوتا جارہا ہے اور اس لئے مَیں نے بچیوں اور خواتین سے ان دنوں کے بارے میں مطالعہ کرنے اور اچھائی اور برائی کا فرق معلوم کرنے کی درخواست کی تھی، لیکن افسوس کہ میری بات کو غلط طریقے سے پیش کرکے اس پر سیاست کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘‘