آج آئس لینڈ کے گرینڈاوک قصبے میں ایک ماہ کے دوران آتش فشاں دوسری مرتبہ پھٹ پڑا ہے، اور اس سے مسلسل لاوا نکل رہا ہے۔ ماہر ارضیات کا کہنا ہے کہ لاوے کا بہاؤ کب تک رکے گا، یہ کہنا ناممکن ہے۔ تاہم، کسی عام شہری کے جانی نقصان کی اطلاعات نہیں ہیں البتہ ایک کارکن شگاف میں گر گیا ہے۔ ملک کے صدر نے ان حالات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
آئس لینڈ آتش فشاں پھٹنا۔ تصویر : آئی این این
گرینڈاوک قصبہ، آئس لینڈ کے جنوب مغرب میں آتش فشاں پھٹنے سے یہاں کے کئی مکان بری طرح تباہ ہوگئے ہیں۔ اس ضمن میں آج بیشتر مکانات خالی کروائے گئے ہیں۔ آئس لینڈ کے صدر گدنی جوہانسن نے کہا کہ ملک قدرت کی زبردست قوت سے نبرد آزما ہے۔اتوار کو ٹی وی پر نشر کئے گئے اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ریکجانیس میں ہنگامہ برپا ہے جہاں ایک عرصے سے خاموش آتش فشاں ایک مرتبہ پھر متحرک ہو گیا ہے۔
اتوار کی صبح اس جزیرہ نما پر آتش فشاں ایک مہینے سے کم وقت میں دوسری مرتبہ پھٹ پڑا ہے۔بڑی تعداد میں آئے زلزلوں کے بعدجلد ہی آتش فشاں پھٹنے کا اشارہ ملتے ہی ایک گھنٹہ قبل حکام نے مچھلی کے شکار کیلئے موزوں اس قصبہ کو خالی کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔ ماہر ارضیات میگنس تومی گڈمنسن نے کہا کہ آتش فشاں سے نکلنے والے لاوے میں رات گئے ’’نمایاں کمی‘‘آئی ہے لیکن یہ کب ختم ہوگا کہنا نا ممکن ہے۔
ملک کی راجدھانی ریکجاوک سے ۵۰؍کلو میٹر جنوب مغرب میں واقع گرینڈاوک قصبہ ۳۸۰۰؍ افراد کی آبادی پر مشتمل ہے جسے گزشتہ سال نومبر میں اس وقت خالی کروایا گیا تھا جب تقریباً ۸۰۰؍ سال خاموش رہنے کے بعد سوارتسینگی آتش فشانی نظام متحرک ہو گیا تھا۔ بالآخر ۱۸؍دسمبر کو آتش فشاں پھٹ پڑاجس سے گرینڈاوک سے لاوا بہہ نکلا۔اس کے بعد۲۲؍ دسمبر کو مکینوں کو اپنے گھر لوٹنے کی اجازت دی گئی تھی۔
تب سے ہنگامی کارکن ایک دفاعی دیوار تعمیر کر رہے ہیں جس نےزیادہ ترحالیہ آتش فشانی مادہ کا بہائو روک دیا۔ آتش فشانی بہائو کے سبب کسی کے ہلاک ہونے کی خبر نہیں ہے البتہ آتش فشاں سے بننے والے شگاف میں گرجانے سے ایک کارکن لا پتہ ہے۔ صدر نے کہا ہے کہ ہم اب تک یہ نہیں جانتے کہ لاوا خارج ہونے کے مسئلہ کو کیسےسلجھایا جائے لیکن ہم اپنے دائرہ اختیار میں آنے والے تمام اقدامات کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قدرت کی اس عظیم تباہی کی صورت میں ہمیں مسلسل اچھے نتائج کی امید رکھنا چاہئے،انھوں نے کہا ’’ہم اپنی تمام ذمہ داری پوری کریں گے اور ہم ہمیشہ ایک ساتھ کھڑے رہیں گے۔‘‘
آئس لینڈجو بحر اوقیانوس کے شمال میں متحرک آتش فشاں کے دہانے پرواقع ہے ،جہاں اوسطاًہر چار سے پانچ سال میں آتش فشانی دھماکہ ہوتا ہے۔ حالیہ وقتوں میں ہونے والےآتش فشانی دھماکوں میں۲۰۱۰ء میں ایجافجالاجوکل کا شدید ترین آتش فشانی دھماکہ تھا، جس کے سبب فضا میں راکھ کے بادل چھا گئے تھے اور ایک مہینے تک بحر اوقیانوس سے گزرنے والا فضائی راستہ متاثر رہا تھا۔موجودہ آتش فشاں سے یہ امید کم ہی کی جا رہی ہےکہ اس سے اتنی بڑی مقدار میں راکھ نکل کر فضا میں شامل ہو،کیفلا وک کے ہوائی اڈا منتظم اساوا کے ترجمان گڈجان ہلگیسن نے بتایا کہ ہوائی اڈہ معمول کے مطابق کام کر رہا ہے۔