سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت والی اعلیٰ سطحی کمیٹی کی سفارش کی بنیاد پر مودی کابینہ نے بدھ کو’ایک ملک، ایک انتخاب‘ (وَن نیشن، وَن الیکشن) کی تجویز کو منظوری دے دی۔
EPAPER
Updated: September 20, 2024, 12:21 PM IST | Agency | New Delhi
سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت والی اعلیٰ سطحی کمیٹی کی سفارش کی بنیاد پر مودی کابینہ نے بدھ کو’ایک ملک، ایک انتخاب‘ (وَن نیشن، وَن الیکشن) کی تجویز کو منظوری دے دی۔
سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت والی اعلیٰ سطحی کمیٹی کی سفارش کی بنیاد پر مودی کابینہ نے بدھ کو’ایک ملک، ایک انتخاب‘ (وَن نیشن، وَن الیکشن) کی تجویز کو منظوری دے دی۔ اس سے ایک روز قبل ہی مودی کی قیادت والی این ڈ ی اے حکومت کی تیسری میعاد کے ۱۰۰؍دن پورے ہونے پر وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی بہ اصرار کہا تھا کہ’’اس حکومت کی مدت کار میں ہی ایک ملک ایک انتخاب والی تجویز نافذ کی جائے گی۔ ‘‘مودی حکومت نے لوک سبھا اور صوبائی انتخابات کے ساتھ ہی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات بھی ایک ساتھ کرانےکیلئے راستہ ہموار کرنے کے مقصد سے سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی نےلوک سبھا انتخابات سے قبل مارچ میں موجودہ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کو اپنی رپورٹ سونپی تھی جس میں ایک ساتھ تمام انتخابات کرانےکیلئے کچھ قوانین میں ترمیم کی سفارش کی گئی تھی۔ رام ناتھ کووند کی قیادت میں والی اس کمیٹی نے ’ایک ملک، ایک الیکشن‘ کی سمت میں پہلے مرحلے کے طورپر لوک سبھا اور ریاستی اسمبلی کے انتخاب ایک ساتھ کرانے کی سفارش کی ہے، اس کے بعد ۱۰۰؍ دنوں کے اندر بلدیاتی انتخابات کرانے کی تجویز ہے۔ یعنی بلدیاتی انتخابات ایک ساتھ نہیں ہوں گے بلکہ ان کیلئے کم وبیش تین مہینے کاوقفہ ہوگا اوراس تجویز کی منظوری کیلئے ایک تہائی سے کم ریاستوں کی منظوری درکار ہوگی۔ اس سفارش کو اگر پارلیمنٹ کی منظوری مل جاتی ہے تو ان ترامیم کو ریاستی اسمبلیوں کی منظوری کی ضرورت نہیں ہوگی۔
بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کی تجویز پر این ڈی اے کی تمام حلیف پارٹیاں راضی ہیں، اور اصلاحات کے اس عمل میں پارٹیوں کی ’مساوات ‘ کوئی رکاوٹ نہیں بنے گی۔ کہا جاسکتا ہےکہ تمام آئینی اورقانونی مرحلوں سے گزر کر اگر ’ون نیشن ون الیکشن ‘نافذہوگیا تو ۲۰۲۹ء میں اسی کے مطابق انتخابات کرائے جاسکتے ہیں۔
بہرحال حالات کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر موجودہ انتخابی نظام کو تبدیل کر کے نئی تجویز یعنی ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کو اختیار کیا جاتا ہے تو کئی ریاستوں کی قانون ساز اسمبلیوں کو وقت سے پہلے تحلیل کرنا پڑے گا اور۱۷؍ایسی ریاستیں ہیں جہاں ۳؍ سال سے کم مدت میں ا سمبلی تحلیل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ملک کی۱۰؍ایسی ریاستیں ہیں جہاں گزشتہ سال ہی اسمبلی انتخابات ہوئے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر ان ریاستوں میں ۲۰۲۸ء میں انتخابات ہوئے تونئی حکومت ایک سال کیلئے ہی ہوگی، یعنی ان ریاستوں کیلئے اب ۲۰۲۵ء، ۲۰۲۶ء اور۲۰۲۷ ء یہ تین ہی سال بچے ہیں۔ جن ریاستوں میں یہ صورتحال پیش آ سکتی ہے ان میں چھتیس گڑھ، راجستھان، مدھیہ پردیش، کرناٹک، تلنگانہ، ہماچل پردیش، ناگالینڈ، تریپورہ، میزورم اور میگھالیہ جیسی ریاستیں شامل ہیں۔
ان ریاستوں کے علاوہ اتر پردیش، گجرات اور پنجاب کی موجودہ حکومتوں کی میعادکار۲۰۲۷ء تک ہے، انہیں صرف دو سال کا وقت ہی مل پائے گا۔ اسی طرح تمل ناڈو، مغربی بنگال، آسام اور کیرالا کی حکومتوں کو صرف تین سال ہی حکومت چلانے کا موقع مل پائے گا۔ ایسا اس لیے کیونکہ ان ریاستوں میں ۲۰۲۶ء میں اسمبلی انتخابات ہوں گے۔ کچھ ایسی ریاستیں بھی ہیں جن کی میعاد ۲۰۲۹ء تک ہے۔ ان میں آندھرا پردیش، ادیشہ، اروناچل پردیش، سکم شامل ہیں۔ کچھ ایسی ریاستیں بھی ہیں جہاں رواں سال انتخابات ہونے والے ہیں ان میں ہریانہ، جموں و کشمیر اور مہاراشٹر ہیں۔ ادیشہ، آندھرا پردیش، اروناچل پردیش اور سکم کے اسمبلی انتخابات لوک سبھا کے ساتھ ہوچکے ہیں جبکہ مہاراشٹر اور ہریانہ میں آئندہ مہینوں میں ہونے والے ہیں، اس لئے ان ریاستوں میں ۵؍ سال حکومتیں رہ سکتی ہیں۔ ایک ساتھ انتخابات کرانے میں کسی آئینی نظام کی خلاف ورزی نہ ہو، یہ یقینی بنانے کے لئے کمیٹی نے آئین کی دفعہ۸۳؍میں ترمیم کرنے کی سفارش کی ہے۔ یہ دفعہ لوک سبھا کی میعاد کار طے کرتی ہے۔ اس کے علاوہ دفعہ۱۷۲؍میں بھی ترمیم کی سفارش کی گئی ہے جو ریاستی اسمبلیوں کی مدت کار مقرر کرتی ہے۔ ایک بار اگر ایک ملک ایک الیکشن نافذ ہوگیا تولوک سبھا اورکوئی ریاستی اسمبلی میعاد سے پہلے تحلیل ہونے اوراکثریت سے محروم ہونے کی صورت حکومت گرنے پر وسط مدتی انتخابات کرائے جائیں گےاور جو نئی حکومت ہوگی، وہ باقی میعاد کیلئے مکمل کرنے کیلئے ہوگی، پانچ سال کیلئے نہیں ہوگی۔