موہتیانچے وڈگاؤں میں روز ایک مقامی مندر سے شام ۷؍ بجے سائرن بجایاجاتا ہے تاکہ لوگ اپنے موبائل فون اور ٹیلی ویژن وغیرہ بند کر کے دیگر سرگرمیوںمیں مصروف ہوجائیں
EPAPER
Updated: September 25, 2022, 10:29 AM IST | sangli
موہتیانچے وڈگاؤں میں روز ایک مقامی مندر سے شام ۷؍ بجے سائرن بجایاجاتا ہے تاکہ لوگ اپنے موبائل فون اور ٹیلی ویژن وغیرہ بند کر کے دیگر سرگرمیوںمیں مصروف ہوجائیں
موبائل اور دیگر الیکٹرانک ساز وسامان کے استعمال نے زندگیوں کو مصروف ترین بنادیا ہے بلکہ ایسا ہوگیا ہےکہ لوگ ان کے چنگل میں پھنسے ہوئے نظرآتے ہیں۔ موبائل کا استعمال صرف استعمال ہی نہیںبلکہ ایک لت بن چکی ہے۔مہاراشٹر کے سانگلی ضلع کے ایک گاؤں میںلوگوں کو موبائل کی اسی لت سے بچانےکیلئے ایک انوکھی پہل کا آغاز کیاگیا ہے۔ضلع کے موہتیانچے وڈگاؤں میں ہر شام ایک مقامی مندر سے شام ۷؍ بجے سائرن بجایاجاتا ہےجو اس بات کا اشارہ ہوتا ہےکہ لوگ اپنے موبائل فون اور ٹیلی ویژن وغیرہ بند کردیں اور مطالعہ کرنے اور ایک دوسرے سے بات چیت کرنے میں مشغول ہو جائیں جب کہ دوسرا سائرن ساڑھے ۸؍ بجے بجتا ہے جو اس وقفے کے خاتمہ کا اشارہ ہوتا ہے۔
موہتیا نچے وڈگاؤں کے سرپنچ وجے موہتے کے پیش کردہ خیال کوگاؤں کے باشندوں نے بڑے پیمانے پر قبول کیا ہے اور وہ اس نئے تجربہ میں جوش و خروش سے حصہ لے رہے ہیں۔موہتے نے اس تعلق سے بتایا کہ’’ کوو ڈ کی وجہ سے لاک ڈاؤن ا ور اس میں آن لائن کلاسیز نےبچوں کے ہاتھ میں موبائل فون تھما دیا اور اب وہ ا سکول ختم ہونے کے بعد فوراً موبائل پر ہی جھپٹتے ہیں جب کہ والدین کے ٹیلی ویژن دیکھنے کے اوقات بڑھ گئے ہیں۔جب آف لائن کلاسیز دوبارہ شروع ہوئیں تو اساتذہ نے محسوس کیا کہ بچے کاہل ہو گئے ہیں، وہ پڑھنا لکھنا نہیں چاہتے اور زیادہ تر اسکول کے اوقات سے پہلے اور بعد میں اپنے موبائل فون میں مگن رہتے ہیں۔ گاؤں والوں کے گھروں میں الگ الگ مطالعہ کے کمرے نہیں تھے۔ اس پر میں نے بچوں اور و الدین کو ڈیجیٹل کی لت سے چھڑانے کیلئے یہ خیال پیش کیا۔‘‘
سرپنچ کے مطابق ’’میں نے پہلے ڈیڑھ گھنٹے کی مدت کی تجویز پیش کی تھی۔شروع میں ہچکچاہٹ تھی کیونکہ لوگ سوچ رہے تھے کہ کیا موبائل اور ٹی وی اسکرین سے دور رہنا ممکن ہے۔ یوم آزادی پر ہم نے خواتین کی گرام سبھا بلائی اور سائرن خریدنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد آشا کارکنان، آنگن واڑی ملازمین، گرام پنچایت ملازمین، ریٹائرڈ ٹیچروں نے گھر گھر جا کراس خیال کے بارے میں بیداری پیدا کی۔‘‘
اس عمل کی وضاحت کرتے ہوئے سرپنچ نے کہا کہ شام۷؍ بجے سے ساڑھے۸؍ بجے کے درمیان لوگ اپنے موبائل فون کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں، ٹیلی ویژن سیٹ بند کردیتے ہیں اور پڑھنےلکھنے، مطالعہ کرنے ا ور بات چیت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے مزید کہا کہ اس کیلئے ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے جو نگرانی کرے گی کہ اس تجویز پر گاؤں میں کہاں تک عمل کیاجارہا ہے۔