راہل گاندھی کو ان کی روایتی سیٹ پر ہراکرایرانی جس بلندی پر پہنچ گئی تھیں،کشوری لال شرماسے ہار کر وہ ویسی ہی پستی میں بھی گر سکتی ہیں، کے ایل شرما کو بی جےپی کے لیڈر ’چپراسی‘ کہہ کر ذلیل کر رہے ہیں ایسے میں ایرانی اگر اُسی ’چپراسی‘ سے ہار گئیں تو کانگریس کا مرکزی وزیر سے یہ غیر معمولی انتقام ہوگا۔ اس کیلئے جہاں پرینکا پوری طرح سرگرم ہیں وہیں مقابلے میں بی جےپی نے بھی پوری طاقت جھونک دی ہے۔
کشوری لال شرما امیٹھی میں کانگریس صدر کھرگے کے ساتھ۔ تصویر : آئی این این
امیٹھی کا مزاج بدلا ہوا نظر آرہاہے۔عوام کے مزاج کی اس تبدیلی سے اگر کوئی سب سے زیادہ پریشان ہے تو وہ اسمرتی ایرانی ہیں جنہوں نے امیٹھی میں ۲۰۱۹ء میں راہل گاندھی کو ان کی روایتی اور خاندانی سیٹ پر شکست دے کر تاریخ رقم کردی تھی۔ اسمرتی ایرانی کے سیاسی کریئر کی یہی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے راہل گاندھی کے مقابلے میں الیکشن لڑا ۔یہی وجہ ہے ۲۰۱۹ء میں ان سے جیتنے کے بعد ہی وہ وزیر نہیں بنیں بلکہ ۲۰۱۴ء میں ہارنے کے بعد بھی بی جےپی نے انہیں راجیہ سبھا کے راستے سے مرکزی وزارت میں شامل کیا۔
خود اسمرتی ایرانی نے بھی اپنی پہچان کٹر راہل مخالف کے طور پر بنا لی ہے۔ راہل گاندھی کا نام آتے ہی وہ تمتما سی جاتی ہیں۔راہل ہمیشہ ان کے نشانے پر رہتے ہیں مگر ان کی ان بیان بازیوں کا جواب اب تک راہل نے دیا، نہ پر گاندھی پریوا ر کے کسی اور فرد نے دینے کی ضرورت محسوس کی ۔ اب ایسا لگ رہاہے کہ کانگریس نے امیٹھی سے راہل کی جگہ کے ایل شرما کو ان کے مدمقابل اتار کر حساب بے باق کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کانگریس کے امیدوار کشوری لال شرما کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے جبکہ اسمرتی ایرانی کا وقار داؤ پر لگا ہوا ہے۔ راہل گاندھی کے مدمقابل نہ ہونے کے بعد بھی زعفرانی پارٹی نے اسمرتی ایرانی کیلئے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ۴؍ ریلیاں ہوچکی ہیں،پارٹی صدر نڈا اور دیگر بڑے لیڈر ریلیاں کرچکے ہیں۔
کانگریس کے امیدوار کشور لال شرما کو بی جےپی اوراس کے لیڈر راہل گاندھی کا ’’چپراسی‘‘اور ’’کلرک‘‘ کہہ کر ذلیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر یہ بھی اسمرتی ایرانی کیلئے ہی مزید پریشانی کا باعث ہے کیوں کہ ہار کی صورت میں انہیں راہل گاندھی کے ’’چپراسی‘‘ اور ’’کلرک‘‘ سے ہار جانے کی شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اب یہ کہنا شرو ع کردیا ہے کہ ان کا مقابلہ پرینکا گاندھی سے ہے جو کے ایل شرما کیلئے امیٹھی میں خیمہ زن ہیں۔
یہ وہ حلقہ ہے جس کی نمائندگی سنجے گاندھی (۱۹۸۰ء)، راجیو گاندھی (۱۹۸۱ء سے ۱۹۹۱ء تک) اور سونیا گاندھی (۱۹۹۹ء) کر چکی ہیں۔گاندھی پریوار کا اس حلقے سے جو تعلق رہاہے اس کو زندہ کرنے میں پرینکا گاندھی بڑی حدتک کامیاب نظر آرہی ہیں۔ دوسری طرف کےایل شرما خود گزشتہ ۴۰؍ برسوں سے پردہ کے پیچھے رہ کر اس پارلیمانی حلقے میں کانگریس کیلئے کام کررہے ہیں۔
بیرون ِ امیٹھی کیلئے وہ بھلے ہی نیا نام ہوں، مگر امیٹھی پارلیمانی حلقے میں وہ ایک ایک محلے میں جانا پہچانا نام ہیں۔یہی وجہ ہے کہ راہل گاندھی کے مدمقابل نہ ہونے کے باوجود اسمرتی ایرانی کیلئے مقابلہ آسان نہیں ہے۔ امیٹھی میں زمینی سطح سے جو رپورٹیں مل رہی ہیں وہ اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ اسمرتی ایرانی کیلئے یہ ’’کرو یا مرو‘‘ والی کیفیت ہے، جسے وہ خود بھی سمجھ رہی ہیں اور بی جےپی کے وسائل کے سہارے وہ پوری قوت سے اس سیٹ کو بچانے کی کوشش کررہی ہیں۔