اقتصادی سروےکے مطابق مالی سال ۲۴۔۲۰۲۳ء اور رواں سال پیاز کی قیمتوں میں اضافہ رہا۔ دام کو کنٹرول کرنےکیلئے حکومت کی جانب سے فوری اقدامات کئے گئے۔
EPAPER
Updated: February 01, 2025, 1:10 PM IST | Agency | New Delhi
اقتصادی سروےکے مطابق مالی سال ۲۴۔۲۰۲۳ء اور رواں سال پیاز کی قیمتوں میں اضافہ رہا۔ دام کو کنٹرول کرنےکیلئے حکومت کی جانب سے فوری اقدامات کئے گئے۔
حکومت کی طرف سےجمعہ کو پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے والے مالی سال ۲۵۔۲۰۲۴ء کے اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ مالی سال ۲۶۔۲۰۲۵ء میں ہندوستان میں خوردہ مہنگائی تقریباً نیچے آجائے گی۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے ذریعے طے کردہ مہنگائی کی تخمینی سطح چار فیصد کا ہدفرواں مالی سال ۲۵۔۲۰۲۴ء میں اپریل سے دسمبر تک مہنگائی۴ء۹؍ فیصد پر آگئی ہے۔
مالیات اور کارپوریٹ امور کی وزیر نرملا سیتا رمن کے ذریعہ پیش کردہ اقتصادی سروے میں کہا گیا ہےکہ ’’ ہاں کے باوجود ریزرو بینک آف انڈیا اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے تخمینوں کے مطابق ملک کی صارفی قیمتوں میں افراط زر کو ۴؍ فیصد تک محدود رکھنے کا ہدف ہے، جو مالی سال ۲۶۔۲۰۲۵ء مزید بڑھے گا۔ سروے میں ریزرو بینک آف انڈیا کے تخمینہ کا ذکر کیا گیا ہے کہ اگلے مالی سال میں افراط زر ۴ء۲؍ فیصد رہے گا۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے مالی سال ۲۵۔۲۰۲۴ءمیں ہندوستان کے لیے افراط زر کی شرح۴ء۴؍ فیصد اور مالی سال ۲۶۔۲۰۲۵ء میں ۴ء۱؍ فیصد رہنے کا اندازہ لگایا ہے۔ اقتصادی سروے نے تجویز کیا ہے کہ دالوں، تیل کے بیجوں، ٹماٹروں اور پیاز کی پیداوار بڑھانے کیلئے آب و ہوا کے موافق قسمیں تیار کرنے کیلئے مرکوز تحقیق کی ضرورت ہے۔ سروے میں کسانوں کو زرعی مشق کی بہتر تربیت اور غذائی اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر نظر رکھنے کیلئے اعلیٰ تعدد پرائس مانیٹرنگ ڈیٹا کے استعمال کی بھی تجویز پیش کی گئی ہے ۔
سروے میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے مختلف اقدامات اور مانیٹری پالیسی اقدامات کی وجہ سے ملک میں خوردہ افراط زر مالی سال ۲۴۔۲۰۲۳ء میں ۵ء۴؍ فیصد سے کم ہو کر مالی سال ۲۵۔۲۰۲۴ء (اپریل تا دسمبر) میں ۴ء۹؍ فیصد پر آ گیا ہے۔ مالی سال ۲۴۔۲۰۲۳ءاور موجودہ مالی سال ۲۵۔۲۰۲۴ء(اپریل تا دسمبر) کے درمیان نان فوڈ، غیر ایندھن کی افراط زر میں۰ء۹؍ فیصد کی کمی آئی ہے۔
اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے انتظامی اقدامات جیسے اشیائے خوردونوش کے بفر اسٹاک میں اضافہ، اشیائے خوردونوش کو اوپن مارکیٹ میں جاری کرنا اور سپلائی میں کمی کی صورت میں درآمدات میں نرمی مہنگائی کو مستحکم رکھنے میں مددگار ثابت ہوئی ہے۔
اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ ملک کی اشیائے خوردونوش کی افراط زر کچھ غذائی اشیاء جیسے سبزیوں اور دالوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ سبزیوں اور دالوں کی قیمتوں نے بنیادی طور پر مالی سال ۲۵۔۲۰۲۴ء میں اپریل سے دسمبر تک ۳۲ء۲؍ فیصد کی کل افراط زر کو متاثر کیا۔ ان اشیاء کو چھوڑ کر رواں مالی سال اپریل سے دسمبر تک اشیائے خوردونوش کی اوسط مہنگائی ۴ء۳؍ فیصد رہی جو کہ مجموعی غذائی مہنگائی ۴ء۱؍ فیصد سے کم ہے۔
اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ مالی سال ۲۴۔۲۰۲۳ء اور رواں سال میں بھی پیاز کی قیمتوں میں اضافے کا دباؤ ہے۔ اگرچہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے فوری اقدامات کیے گئے ہیں، لیکن پیاز گزشتہ مالی سال اور رواں مالی سال (اپریل سے دسمبر) میں کم پیداوار اور محدود رسد کی وجہ سے مہنگائی کے دباؤ میں رہی۔ مالی سال ۲۴۔۲۰۲۳ء سے کم رسد کی وجہ سے ٹماٹر کی قیمتیں بھی وقتاً فوقتاً بڑھ رہی ہیں۔ حکومت کی جانب سے سرگرم کوششوں کے باوجود، ٹماٹر کی قیمتیں اس کے خراب ہونے اور اس کی کاشت صرف چند ریاستوں تک محدود ہونے کی وجہ سے بڑھتی رہیں۔
بے روزگاری کی شرح ۲ء۳؍ فیصد تک کم ہوئی : اقتصادی سروے
اقتصادی سروے ۲۴۔۲۰۲۳ءمیں کہا گیا ہے کہ ملک میں روزگار کے مواقع مسلسل بڑھ رہے ہیں اور مالی سال ۲۴۔۲۰۲۳ء میں بے روزگاری کی شرح کم ہو کر ۳ء۲؍ فیصد پر آ گئی ہے جبکہ مالی سال ۱۸۔۲۰۱۷ء میں بے روزگاری کی شرح ۶؍ فیصد تھی۔
مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے جمعہ کو پارلیمنٹ میں اقتصادی سروے پیش کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں روزگار کے مواقع مسلسل بڑھ رہے ہیں اور بے روزگاری کی شرح کم ہو رہی ہے اور ورک فورس میں خواتین کا حصہ بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدرا یوجنا، اسکل انڈیا، اسٹارٹ اپ انڈیا اور اسٹینڈ اپ انڈیا جیسے اقدامات نے انٹرپرینیورشپ کو فروغ دینے، ہنر کی تربیت فراہم کرنے اور خود انحصاری اور پائیدار معاش کی تعمیر میں افراد کی مدد کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
سیتا رمن نے کہا کہ کورونا وبا کے بعد صورتحال کی مضبوط بحالی اور معمول کی صورتحال میں بہتری کی وجہ سے حالیہ برسوں میں لیبر مارکیٹ کے اشارے میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ ڈیجیٹل اکنامی اور قابل تجدید توانائی جیسے شعبوں میں اعلیٰ معیار کے روزگار کے مواقع موجود ہیں۔
اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ مالی سال ۲۰۲۴ء میں کارپوریٹ سیکٹر کا منافع ۱۵؍ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے لیکن اجرت کی شرحوں میں اب بھی وسیع تضادات موجود ہیں۔ اقتصادی سروے میں کارپوریٹ سیکٹر بالخصوص بڑی فرمس کے منافع میں آمدنی میں عدم مساوات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ پائیدار اقتصادی ترقی کا انحصار بہتر روزگار کی آمدنی پر ہے جو براہ راست صارفین کی قوت خرچ اور پیداواری صلاحیت میں سرمایہ کاری کو بڑھاتا ہے۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ طویل مدتی استحکام حاصل کرنے کے لیے سرمائے اور محنت کے شعبوں میں آمدنی کی شفاف اور منصفانہ تقسیم بہت ضروری ہے۔ یہ طلب کو برقرار رکھنے اور کارپوریٹ سیکٹر کی آمدنی اور منافع کو درمیانی سے طویل مدت میں بڑھانے کے لیے ضروری ہے۔
اکنامک سروے کے مطابق ملک میں ۱۵؍ سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کی بے روزگاری کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے جو مالی سال ۲۴۔۲۰۲۳ء میں کم ہو کر۳ء۲؍ فیصد رہ گئی ہے جو مالی سال ۱۸ء۔۲۰۱۷ء میں ۶؍ فیصد تھی ۔ مالی سال ۲۰۱۹ء میں ایمپلائز پروویڈنٹ فنڈ آرگنائزیشن - ای پی ایف او سے جڑے لوگوں کی تعداد۷۱؍ لاکھ تھی جو مالی سال۲۰۲۴ء میں دُگنی ہو کر۱۳۱؍ لاکھ ہو گئی ہے۔ ان میں سے تقریباً۶۱؍ فیصد لوگ۲۹؍ سال سے کم عمر کے ہیں۔ ملک میں خود روزگار کے مواقع بھی بڑھے ہیں۔ سال ۱۸۔۲۰۱۷ءمیں لیبر فورس میں سیلف ایمپلائڈ ورکرس کی تعداد ۵۲ء۲؍ فیصد تھی جو کہ مالی سال ۲۴۔۲۰۲۳ء میں بڑھ کر ۵۸ء۴؍ فیصد ہو گئی ہے۔ مالی سال ۲۰۲۳ء کے سالانہ صنعتی سروے کے مطابق گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں روزگار میں ۷؍ سال سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔
سی ای اے کو تشویش
لوک سبھا میں اقتصادی سروے پیش کئے جانے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے، چیف اکنامک ایڈوائزر(سی ای اے ) نے عالمی خدمات کے شعبے میں ہندوستان کے بڑھتے ہوئے کردار اور اس شعبے میں ملک کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر روشنی ڈالی۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ ۳۰۔۲۵؍برسوں میں، چین نے خاص طور پر ہائی ٹیک اور میڈیم ٹیک صنعتوں میں اپنا غلبہ برقرار رکھا ہے۔ سی ای اے نے یہ بھی کہا کہ چین کی مینوفیکچرنگ آؤٹ پٹ اس قدر غالب ہے کہ عالمی مجموعی پیداوار میں اس کا حصہ مجموعی طور پرزیادہ ہے۔