• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سپریم کورٹ میں بھائی چارہ کی جیت، فرقہ پرستی ہار گئی

Updated: July 23, 2024, 10:55 AM IST | Agency | New Delhi

عدالت نے کانوڑ یاترا کے راستے پر کھانے پینے کی اشیاء کی دُکانوں  کے باہر دکان مالک کانام جلی حروف میں لکھنے کے یوپی، اتراکھنڈ اور ایم پی سرکار کے حکم پر روک لگادی۔

The name of the owner of the shop can be seen on the board of a shop along the Kannur Yatra route as per the order of the UP Government. Photo: INN
کانوڑ یاترا کے راستے میں موجود ایک دکان کے بورڈ پر یوپی حکومت کے حکم کے بعد دکان کے مالک کا نام دیکھا جاسکتاہے۔ تصویر : آئی این این

سپریم کورٹ نے کانوڑ یاترا کے راستے میں آنے والی کھانی پینے کی اشیاء کی دکانوں، ڈھابوں اور ہوٹلوں  کے باہر نیز ٹھیلوں  پر ان کے مالکوں اورملازمین کے نام  جلی حروف میں لکھنےکے یوپی، اتراکھنڈ اور ایم پی حکومت کے احکامات پر فوری طور پر روک لگادی ہے۔ کورٹ نے تینوں ریاستوں کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کیا ہے اور جمعہ کو اس پر تفصیلی سماعت کافیصلہ کیا ہے۔ ان الزامات کے بیچ کہ مذکورہ حکم کا مقصد مسلم تاجروں  اور دکانداروں کی نشاندہی کرکے یاترا کے دوران ان کے بائیکاٹ کو فروغ دینے کی کوشش تھا، عدالت کے اس عبوری فیصلے کو نفرت کی سیاست پر بھائی چارہ کی جیت کے طور پر دیکھا جارہاہے۔ 
تینوں ریاستوں سے جواب طلب
اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور اتراکھنڈ کی حکومتوں کو جاری کئے گئے نوٹس میں جسٹس  رشی کیش رائے اور ایس وی این بھٹی کی بنچ نے  جمعہ سے پہلے جواب مانگا ہے تاکہ جمعہ کو تفصیلی سماعت ہوسکے۔ عدالت نے مالکان کے نام کے حکم پر روک  لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات کی تختی ضرور لگائی جاسکتی  ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء’ویج‘ ہیں یا’نان ویج‘ کیوں کہ کانوڑ یاترا کے دوران کئی عقیدت مند ’نان ویج‘ کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔ 
سپریم کورٹ سے کس نے رجوع کیا
سپریم کورٹ ناموں کی تختی کے تعلق سے بی جےپی حکومتوں  کے متنازعفیصلے  کے خلاف  ٹی ایم سی کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند ، حقوق انسانی کے علمبردار آکار پٹیل اور سماجی تنظیم اسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کی داخل کردہ اپیل پر شنوائی کررہا تھا۔ جسٹس رشی کیش رائے اور ایس وی این بھٹی کی بنچ  نے کہا کہ ہوٹل مالکان اور ملازمین کو نام ظاہر کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ 
ابھیشیک منو سنگھوی کی کامیاب پیروی
سینئر ایڈوکیٹ ابھیشیک منوسنگھوی جو رکن پارلیمان مہوا موئترا کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے ، نے کورٹ کو بتایاکہ اس ہدایت کا مقصد ’’شناخت کی بنیاد پر بائیکاٹ‘‘ ہے۔ اسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کی پیروی کرتے ہوئے چندر اُدئے سنگھ نے زور دیا کہ ریاستی حکومت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ مذکورہ حکم پر عمل درآمد اختیاری ہے مگر پولیس  اس پر زبردستی عمل درآمد کروارہی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ’’اس حکم کا کوئی قانونی جواز نہیں ہےا ور کوئی قانون کمشنر کو اس طرح کا حکم جاری کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔‘‘
’’نام کی تختی حکم حکومت قطعی غیر قانونی‘‘
اس سے قبل ابھیشیک منوسنگھوی نے کورٹ کو متوجہ کیا کہ کانوڑ یاترا دہائیوں سے  چل رہی ہے اور مختلف مذاہب کے ماننے والے کانوڑیوں کی مدد کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ بہت سے ’ویج‘ ہوٹل جو ہندو ؤں  کے ہیں ان میں مسلمان اور دلت ملازمت کررہے ہیں۔ سینئر وکیل نے  فوڈ سیفٹی اینڈاسٹینڈرڈس ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کورٹ کو آگاہ کیا کہ قانون یہ ہدایت نہیں دیتا کہ دکان مالک اپنی دکان کا نام اپنے نام پر رکھیں۔ بنچ کے سامنے دیگر درخواست گزاروں کے وکلاء نے کہا کہ اتر پردیش اور اتراکھنڈ کے وزرائے اعلیٰ کے جاری کردہ بیانات کے بعد اعلیٰ سطح پر حکم پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ یہ  ہدایات آئین کی تمہید میں موجود سیکولرازم اور بھائی چارے کے  وعدہ  کے منافی ہیں۔ 
میں خود مسلمان کی ہوٹل میں کھاتا تھا: جج
عدالت میں صاف صفائی اور ’ویج‘ ،’نان  ویج‘ کے حوالے سے گفتگو کے دوران جسٹس ایس وی این بھٹی نے بتایا کہ جب وہ کیرالا میں تعینات تھے تو وہ وہاں اکثر ایک مسلمان کے ’ویج ہوٹل‘ میں جایا کرتے تھے کیوں کہ وہ صاف صفائی کے عالمی معیار کی پابندی کرتا تھا۔ جسٹس بھٹی جو کیرالا ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں، نے اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئےکہا کہ ’’اس کورٹ کا جج ہونے کے ناطے میں کھل کر نہیں کہہ سکتا اس لئے شہر کا نام لئے بغیر بتارہا ہوں کہ وہاں دو شاکا ہاری ہوٹل تھے۔ ایک کو ہندو چلاتا تھا، دوسرا مسلمان کا تھا۔ میں ہمیشہ مسلمان کے ہوٹل میں جاتا تھا کیوں کہ وہاں صاف صفائی کے عالمی معیار کی پابندی کی جاتی تھی۔ ایسا اس لئے تھا کہ اُس ہوٹل کا مالک دبئی سے لوٹا تھا۔ وہ بورڈ پر سب کچھ لکھ دیا کرتاتھا۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK