ریاستی حکومت کے فیصلے پر اپوزیشن کی تنقید، راوت نے کہا ہم ایسا کچھ کرتے ہیں تو اسے ووٹ جہاد کا نام دیا جاتا ہے۔
EPAPER
Updated: October 12, 2024, 1:27 PM IST | Iqbal Ansari | Mumbai
ریاستی حکومت کے فیصلے پر اپوزیشن کی تنقید، راوت نے کہا ہم ایسا کچھ کرتے ہیں تو اسے ووٹ جہاد کا نام دیا جاتا ہے۔
اسمبلی الیکشن کے پیش نظر ریاستی حکومت آناً فاناً میں مختلف اعلانات کر رہی ہے۔ ایک روز قبل سہیادری ریسٹ ہاؤس میں ہوئی کابینہ میٹنگ میں اقلیتوں کیلئے بھی کئی اہم اعلان کئے گئے۔ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ سرکاری مدارس میں پڑھانے والے ڈی۔ ایڈ، بی ایڈ۔ اساتذہ کی تنخواہوں میں ۱۰؍ ہزار روپے کا اضافہ کر دیا گیا۔ یہ تجویز وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کی صدارت میں منظور کی گئی ہے۔
تجویز کے مطابق ڈاکٹر ذاکر حسین مدرسہ ماڈرنائزیشن اسکیم کےتحت ریاست کے مدارس میں دینی تعلیم کے علاوہ عصری تعلیم دینے کیلئے اساتذہ کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر مقرر کیا جاتا ہے۔ فی الحال ڈی۔ ایڈ اساتذہ کو۶؍ ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے، اسے بڑھا کر۱۶؍ ہزار روپے کر دیا جائے گا۔ اسی طرح بی ایڈ اساتذہ کی تنخواہ۸؍ ہزار روپے سے بڑھا کر۱۸؍ ہزار روپے کر دی جائے گی۔ اس کے علاوہ مولانا آزاد مائنارٹی اکنامک ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے’ شیئر کیپٹل‘ کو بڑھا کر ایک ہزار کروڑ روپے کرنے کا فیصلہ کابینہ کی میٹنگ میں کیا گیا۔ اس وقت یہ سرمایہ ۷۰۰؍کروڑ روپے ہے اس میں ۳۰۰؍کروڑکااضافہ کیاگیاہے۔ یہ کارپوریشن اقلیتی طبقے کے نوجوانوں کومختلف قرض اور کریڈٹ دیتاہے۔ گویاحکومت نے قرض لینے کی گارنٹی بڑھا دی ہے۔
مسلمانوں کو قرض نہیں اسکالر شپ چاہئے
سماج وادی پارٹی کے رکن اسمبلی رئیس شیخ نے حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت قبائل اور درج فہرست جماعتوں کیلئے اسکالر شپ اور امداد دیتی ہے لیکن مسلمانو ں کو قرض دے رہی ہے۔ اس میں بھی بڑے پیمانے پر بدعنوانی جاری ہے۔ حکومت کو پہلے یہ بتانا چاہئے کہ کتنے نوجوانوں نے مولانا آزاد مالیاتی کارپوریشن سے قرض لیا ہے۔ اس طرح کے فیصلے بتاتے ہیں کہ حکومت کی مسلم کمیونٹی کے تئیں نیت صاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں مہا یوتی حکومت کے چند دن بچے ہیں ، اسلئے حکومت جلد بازی میں فیصلے کر رہی ہے۔ ان میں کئی ذاتوں اور قبائل کی فلاح و بہبود کے فیصلے ہو رہے ہیں۔ تاہم، مسلم سماج کے لئےریزرویشن اور سماجی تعلیمی سروے کیلئے اقدام نہیں کیا گیارئیس شیخ نے کہاکہ مدارس کے اساتذہ کی تنخواہو میں اضافہ اور مولانا آزاد کارپوریشن سرمایے اضافے کا جو اعلان ہے وہ بہت کم ہے۔
شیوسینا (ادھو) کے ترجمان سنجے رائوت نے کہا ہے کہ ’’ مدرسوں کے اساتذہ کی تنخواہ بڑھنی چاہئے لیکن یہی چیز جب ہم کرتے ہیں تو اسے ووٹ جہاد کہا جاتا ہے۔ اب ان کے اندھ بھکتوں کو بتانا چاہئے کہ کیا یہ ووٹ جہاد نہیں ہے؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ عوام کی سمجھ میں یہ بات آ چکی ہے کہ حکومت الیکشن کے پیش نظر اعلان پر اعلان کرتی چلی جا رہی ہے لیکن وہ انہیں پورا نہیں کرے گی۔ ‘‘ حیران کن طور پر مسلمانوں کے خلاف بیانات دینے والے بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا نے حکومت کے اس فیصلے کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ ہماری حکومت سیکولر طرز پر کام کرتی ہے اور تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے اس لئے یہ اقدام قابل ستائش ہے۔