• Fri, 22 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ڈاکٹروں کی تجویز کے بغیر میڈیکل اسٹور سے’اینٹی بائیوٹک‘ دواؤں کی خریداری میں اضافہ

Updated: November 21, 2024, 11:15 PM IST | Shahab Ansari | Mumbai

فورٹس اسپتال کے ذریعہ کئے گئے سروے میں انکشاف۔ معلومات کے بغیر اپنا علاج آپ کرنے سے بیماری کے جراثیم طاقتور بن رہے ہیں: ماہرین

People are buying medicine at a medical store.
ایک میڈیکل اسٹور پر لوگ دواخریدرہے ہیں۔

 فورٹس اسپتال کے ذریعہ کئے گئے ایک سروے میں پتہ چلا ہے کہ بڑی تعداد میں ممبئی کے لوگ ڈاکٹروں سے رجوع ہونے کے بجائے براہِ راست میڈیکل اسٹور سے ’اینٹی بائیٹک‘ دوائیں خرید لیتے ہیں جس کی وجہ سے ’اینٹی مائیکرو بائیل ریزسٹنس‘ کے اضافہ کا خدشہ ہے جس میں اینٹی بائیوٹک دوائیں اثر نہیں کرتیں۔
 فورٹس اسپتال کی جانب سے حال ہی میں سروے کیا گیا تھا۔ تقریباً ایک ماہ کے دوران ۴؍ ہزار ۵۱۱؍ افراد کا سروے کیا گیا جس میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ بہت بڑی تعداد میں ممبئی کے لوگ ڈاکٹروں سے رجوع کئے بغیر ہی براہِ راست میڈیکل اسٹور سے ’اینٹی بائیوٹک‘ خرید لیتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق اس حرکت سے ’اینٹی مائیکروبائیل ریزسٹنس‘ میں اضافہ کا اندیشہ بہت بڑھ گیا ہے۔
 طبی ماہرین کے مطابق جب ڈاکٹروں سے مشورہ کئے بغیر ’اینٹی بائیوٹک ‘استعمال کی جاتی ہے تو اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ بیماری کے جراثیم انہیں مارنے کیلئے بنائی گئی دوائوں سے لڑنا سیکھ جائیں اور پھر یہ دوائیں ان جراثیم کے خلاف کام نہ کریں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مریض کو ہونے والے ’انفیکشن‘ کا علاج کرنا مزید دشوار ہوجاتا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ڈاکٹروں کے ذریعہ تجویز کی گئی مقدار اور مدت کو مکمل نہ کیا جائے یا ضرورت سے زیادہ دنوں تک دوا کھائی جائے تو جراثیم کو ان دوائوں کے خلاف لڑنے میں قوت ملتی ہے اور یہ جراثیم طاقتور ہوجاتے ہیں نیز ان پر دوائیں کم اثر انداز ہوتی ہیں۔
 ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ’اینٹی مائیکرو بائیل ریزسٹنس‘ کی بنیادی وجہ لوگوں کا اپنا علاج خود کرنا اور اینٹی بائیوٹک کا ٹھیک طرح سے استعمال نہ کرنا ہے۔
 واشی کے ہیرا نندانی اسپتال کے ڈاکٹر فرح انگلے کے مطابق میڈیکل اسٹور پر اینٹی بائیوٹک دوائیں بآسانی دستیاب ہوتی ہیں اور عوام میں اس تعلق سے بیداری کی کمی ہے کہ اینٹی بائیوٹک کا صحیح استعمال کیسے کیاجائے اور انہیں کس طریقہ سے استعمال کیا جائے کہ ان سے بیماری کے جراثیم طاقتور نہ بن سکیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہاں اس طرح کی روایت بھی ہے کہ لوگ اپنے اہلِ خانہ اور دوستوں کی باتوں میں آکر خود اپنے آپ پر دوائوں کا تجربہ کرنے لگتے ہیں۔
 فورٹس اسپتال سے ہی وابستہ ڈاکٹر ایس نارائنی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ کم معلومات کے باوجود اپنا علاج خود کرنے کی روایت کی وجہ سے ’اینٹی مائیکرو بائیل ریزسٹنس‘ میں بے تحاشہ اضافہ کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے اس لئے اس تعلق سے عوام میں بیداری لانے کی ضرورت ہے۔
 طبی ماہرین کے مطابق ’وائرل فلو‘ کا علاج اینٹی بائیوٹک سے نہیں کیا جاتا لیکن مہارت یا معلومات نہ ہونے کی وجہ سے لوگ جب اپنا علاج خود کرتے ہیں تو اس میں بھی اینٹی بائیوٹک کھاتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اینٹی بائیوٹک ہر بیماری کا علاج نہیں ہے۔ کون سی بیماری بیکٹریا سے ہوتی ہے، کون سی وائرس سے اسی بنیاد پر بیماری کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد ڈاکٹر یہ طے کرتے ہیں کہ اینٹی بائیوٹک لینا ہے یا نہیں اور اگر لینا ہے تو اس کی مقدار اور مدت وغیرہ کیا ہوگی ۔اس کے بعد ہی وہ مریضوں کو دوا تجویز کرتے ہیں۔
 طبی ماہرین نے اپیل کی ہے کہ ڈاکٹروں سے مشورے کے بغیر براہِ راست میڈیکل اسٹور سے دوائیں خرید کر اپنی صحت سے کھلواڑ نہ کریں۔
سروے کی تفصیلات
 اس سروے میں ۲۶؍ سے ۵۰؍ برس کی عمر کے افراد سے گفتگو کی گئی جن میں ایک ہزار ۱۵۷؍ مرد اور ایک ہزار ۲۸۵؍ خواتین تھیں۔
 اس سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ جن افراد سے گفتگو کی گئی، ان میں سے صرف ۴۳؍ فیصد لوگ دوائیں استعمال کرنے سے قبل ڈاکٹروں سے رجوع ہوتے تھے۔ ان تمام افراد میں سے ۵۳؍ فیصد لوگوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ان کے خاندان میں اگر کسی کو بیماری کی وہی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں جن کیلئے وہ کوئی دوا استعمال کررہے ہوتے ہیں تو وہی دوا وہ اس رشتہ دار کو بھی دے دیتے ہیں۔
 ان میں ۳۹؍ فیصد افراد نے اس بات کا اعتراف کیا کہ طبیعت ٹھیک محسوس ہونے پر وہ دوائوں کا کورس مکمل نہیں کرتے اور علاج کے درمیان میں دوائیں کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔
 ۴۰؍ فیصد لوگوں کو اس بات کا علم نہیں کہ دوائوں کا کورس مکمل نہ کرنا بھی مضر ہوتا ہے۔
 ۶۱؍ فیصد افراد ایسے تھے جو کسی بیماری یا چیک اَپ کیلئے ڈاکٹروں کے پاس جانے پر ان سے ان اینٹی بائیوٹک کے تعلق سے مشورہ کرتے ہیں جو وہ پہلے سے استعمال کررہے ہوتے ہیں۔
 ۷۱؍ فیصد لوگ یہ نہیں جانتے کہ بیکٹریا اور وائرس سے ہونے والی بیماریوں میں فرق ہوتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK