تنظیموں اورمسافروں نے سوالات قائم کئے۔ناراضگی کے سبب بھائندر جیسی صورتحال دوبارہ پیدا ہونے کا اندیشہ۔ ریلوے نے اے سی سروسیز کی تبدیلی برقرار رکھی۔
EPAPER
Updated: December 04, 2024, 1:30 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai
تنظیموں اورمسافروں نے سوالات قائم کئے۔ناراضگی کے سبب بھائندر جیسی صورتحال دوبارہ پیدا ہونے کا اندیشہ۔ ریلوے نے اے سی سروسیز کی تبدیلی برقرار رکھی۔
ویسٹرن ریلوے میں اے سی لوکل خدمات بڑھانے پر دیگر مسافروں اور تنظیموں نے یہ کہہ کر ریلوے سے سوال کیا کہ کیا اے سی لوکل کے مسافروں کی فکر کرنے والی ریلوے کی نگاہ میں جنرل مسافروں کی وہ اہمیت نہیں ہے ؟جبکہ جنرل ٹرینوں کے مسافروں کی تعداد ۲۹؍ لاکھ ہے اور اے سی لوکل کے مسافر محض ایک تا سوالاکھ ہیں۔دوسری جانب ناراضگی کے سبب جو صورتحال پیر کو بھائندر میں پیدا ہوئی تھی اس کے دوبارہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ حالانکہ ویسٹرن ریلوے کی جانب سے اے سی لوکل کے ضمن میں کی گئی تبدیلی برقرار رکھی گئی ہے۔
واضح ہوکہ ویسٹرن ر یلوےمیں۲۷؍نومبر سے۱۳؍ اے سی لوکل سروسیز کا اضافہ کیا گیاہے ۔ اس کے بعد مجموعی اے سی خدمات ۹۶؍ سے بڑھ کر۱۰۹؍ ہوگئی ہیں ۔بڑھائی جانےوالی سروسیز میں ۶؍ اپ اور ۷؍ ڈاؤن ہیں۔حالانکہ ویسٹرن ریلوے میں مجموعی لوکل خدمات ۱۴۰۶؍ ہیں۔
ویسٹرن ریلوے کنسلٹنٹیوکمیٹی کے سابق رکن منصورعمر درویش نے کہا کہ’’ ایک جانب اے سی لوکل بڑھائی گئی ہیں اور دوسری جانب جنرل ٹرینوں کےمسافرو ںکی ۱۳؍ سروسیزکم کردی گئی ہیں، کیا یہ انصاف ہے ؟ دوسرے ریلوے انتظامیہ کی دلیل میں اس لئے دَم نہیںہے کیونکہ اگراس کی نگاہ میں بھائندر سے ۸؍بجکر ۲۱؍منٹ کی اے سی لوکل کے بعد ۸؍بجکر۲۴؍منٹ پر دوسری ٹرین بھی اس لئے اے سی رکھی گئی ہے کہ پہلی اے سی ٹرین بھری رہتی ہے تو ریلوے کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ جب یکے بعد دیگرے دو ٹرینیں اے سی روانہ کی جائیں گی توجنرل ٹرینوں کے مسافروں کابھیڑبھاڑ کے سبب کیا حال ہوگا ؟ کیا جنرل کٹیگری کے مسافر اس ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں؟ دوسرے یہ کہ۱۳؍سروسیز کو جنرل سروسیزسے کیوں کم کیا گیا؟‘‘
ریل پرواسی سنگھٹن کے سابق عہدیدار سمیر زویری نےکہاکہ ’’ سینٹرل کی طرح ویسٹرن ریلوے میں مسافروں کاغصہ اسے لئے پھوٹا تھا کہ ان کےساتھ ناانصافی کی گئی اور ان کوصبح کے وقت میں سفر میں کافی پریشانی کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ریلوے افسران کویہ اچھی طرح اندازہ ہونا چاہئے کہ صبح وشام کے اوقات میںمسافروں کا کیا حال ہوتا ہے۔ اس لئے مسافروں کی ناراضگی کوغلط نہیںکہا جاسکتا اوراگر پھر کہیں احتجاج ہو تواسے غیرمتوقع بھی نہیں سمجھنا چاہئے۔‘‘
حافظ عبدالجبار خان نامی مسافر نے بتایاکہ ’’وہ وسئی سے ٹرین میں سوار ہوتے ہیں لیکن اگرصبح ۸؍ بجے کے وقت نالاسوپارہ سے چلائی جانے والی ٹرین کسی سبب چھوٹ جائے یا اس میں سوار نہ ہوسکیں تو ویرار سے آنے والی ٹرینوں میںبے تحاشہ بھیڑبھاڑ کا یہ حال ہوتا ہے کہ ۱۰؍ساڑھے دس بجے تک ٹرین میں گھسنا دشوار ہوتا ہے۔ ایسے میں ریلوے کو جنرل کٹیگری کے مسافروں کی فکر کرنی چاہئے۔‘‘
ویسٹرن ریلوے کے چیف پی آر او ونیت ابھیشیک نے نمائندۂ انقلاب کے استفسار پر مذکور ہ بالا سوالات کے جوابا ت دیتے ہوئے کہاکہ ’’صبح و شام کے اوقات میںمسافروں کی پریشانی سے انکار نہیں مگر اے سی لوکل مسافروں کے مطالبے پر بڑھائی گئی ہےاور احتجاج کے باوجود وہی شیڈول برقرار ہے ۔ اگراے سی ٹرینوں کے مسافروں کو صبح وشام کے اوقات میں سہولت نہیں دی جائے گی تو آخر کب دی جائے گی ۔جنرل کٹیگری کے مسافروں کی بھی ریلوے کی نگاہ میں اتنی ہی قدر ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اے سی ٹرینوں کےمسافر سوا لاکھ سے زائد ہیں جبکہ نان اے سی لوکل ٹرینوں کےمسافر ۲۹؍ لاکھ ہیں۔‘‘ چیف پی آر اونے اے سی لوکل کے کرایے کا بیسٹ کی نان اے سی بسو ں سے تقابل کیا اور جوازپیش کرنےکی کوشش کی۔ ان کی دلیل تھی کہ بیسٹ کی نان بس کافی کلومیٹر کرایہ ۸۰؍پیسے ہےجبکہ اے سی لوکل ٹرین کا فی کلو میٹر کرایہ ۸۴؍ پیسے ہے۔ اے سی لوکل زیادہ آرا م دہ ہے، پھر بھی کرایہ نسبتاً کم ہے۔ اس لئے مسافروں کو تعاون کرنا چاہئے۔‘‘