ہندوستان میں ڈینگو، نپاہ اور زیکا وائرس کے بعد اب گجرات میں چاندی پورہ وائرس کے تیز رفتار پھیلاؤ نے طبی حکام کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ چاندی پورہ وائرس کو مہاراشٹر کے گاؤں چاندی پورہ میں ۱۹۶۵ء میں دریافت کیا گیاتھا۔
EPAPER
Updated: August 06, 2024, 4:57 PM IST | Surat
ہندوستان میں ڈینگو، نپاہ اور زیکا وائرس کے بعد اب گجرات میں چاندی پورہ وائرس کے تیز رفتار پھیلاؤ نے طبی حکام کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ چاندی پورہ وائرس کو مہاراشٹر کے گاؤں چاندی پورہ میں ۱۹۶۵ء میں دریافت کیا گیاتھا۔
جون۲۰۲۴ء کے اوائل سے اب تک چاندی پورہ وائرس کے باعث تقریبا ۳۸؍ افراد، جن میں زیادہ تر بچے اور کم عمر افراد شامل ہے، اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ، ہندوستان میں گزشتہ ۲۰؍برسوں میں چاندی پورہ وائرس کی سب سے بھیانک وبا ہے۔ چاندی پورہ وبا سے متاثر شخص میں فلو جیسی ابتدائی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ ۲۴ سے ۴۸ گھنٹے کے بعد علامات شدید ہو جاتی ہے اور متاثرہ شخص دماغ کی سوجن، کوما اور موت کے منہ میں پہنچ جاتا ہے۔ ۱۵؍سال سے کم عمر کے بچے اس وبا سے زیادہ اور جلد متاثر ہوتے ہیں۔
سائنس اب تک پتہ نہیں لگا سکی کہ چاندی پورہ وائرس کس طرح مرکزی عصبی نظام پر حملہ کرتا ہے اور دماغی سوجن کی وجہ بنتا ہے۔ تاہم، ریسرچ میں یہ بات سامنے ائی ہے کہ جب وائرس سے متاثر کیڑا خون پینے کی عرض سے انسان کو کاٹتا ہے تو اس کے تھوک کے ذریعے چاندی پورہ وائرس انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے۔ انسانی جسم میں داخل ہو کر چاندی پورہ وائرس، خون کی رگوں میں پھیل جاتا ہے اور دفاعی نظام کے مونو سائثس نامی سفید خلیات تک پہنچتا ہے جہاں یہ دفاعی نظام کی پکڑ میں آئے بغیر خود کی افزائش کرتا ہے۔ اس کے بعد وائرس مرکزی عصبی نظام تک پہنچ جاتا ہے اور دماغ کے حفاظتی جھلی کو عبور کرکے دماغ میں داخل ہوتا ہے۔
انسان کے وائرس سے متاثر ہونے کے چھ گھنٹے بعد چاندی پورہ وائرس، دماغی خلیات کے اندر فاسفو پروٹین نامی پروٹین کا اخراج کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ متاثرہ کی موت جلد واقع ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ابھی تک اس وائرس کیلئے کوئی اینٹی وائرل دوا موجود نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ویکسین موجود ہے۔چاندی پورہ وائرس مہاراشٹر کے چاندی پورہ گاؤں میں ۱۹۶۵ء میں پہلی مرتبہ دریافت کیا گیا تھا۔ اسی مناسبت سے اس کا نام چاندی پورہ رکھا گیا۔ اس کی پہلی وبا ۲۰۰۳ء میں جنوبی ہند کی ریاست آندھرا پردیش میں پھیلی تھی جہاں ۳۲۹ بچے اس وبا کا شکار بنے تھے اور ان میں سے ۱۸۳؍ بچوں ہلاک ہوئے تھے۔ ۲۰۰۵ء میں گجرات میں چاندی پورہ وائرس پھیل گیا جس کے ۲۶؍کیسز سامنے آئے۔ اس وبا میں اموات کی شرح ۸؍ فیصد ریکارڈ کی گئی۔
گجرات میں پھیلی حالیہ چاندی پورہ کے تاحال ۱۰۰ سے زائد کیسز سامنے آئے ہیں جن میں ۱۵ سال سے کم عمر بچے وائرس کا آسان شکار بن رہے ہیں۔ وبا کے تیز رفتار پھیلاؤ اور اس کی شدت نے طبی حکام کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
چاندی پورہ ائرس کا پھیلاؤ برصغیر ہندوستان تک محدود نہیں ہے۔ اس کا جغرافیائی پھیلاؤ ہندوستان کی سرحدوں کے باہر بھی دیکھنے ملا ہے۔ مذکورہ وائرس کو ۱۹۹۱ء اور 1۹۹۲ء میں مغربی افریقہ کی مقامی مکھیوں سینڈ فلائی اور ۱۹۹۰ء تا ۱۹۹۶ء کے درمیان سینیگال میں خارپشت جانور میں اس کی موجودگی کے آثار ملے تھے۔ ۱۹۹۲ء میں سری لنکا میں جنگلی بندروں میں چاندی پورہ وائرس کی اینٹی باڈیز پائی گئی تھی۔ ہندوستان میں چاندی پورہ وائرس کا ابھرنے کی وجہ موسمی تبدیلیاں ہوسکتی ہیں اور بڑھتے درجہ حرارت وائرس کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ گزشتہ برسوں میں ہندوستان میں کیڑے مکوڑوں کے ذریعے پھیلنے والی بیماریاں تیزی سے پھیلی ہے جس کی اہم وجہ موسمی تبدیلیاں ہے۔ مثال کے طور پر رواں سال موسم گرما میں ہندوستان میں مچھروں کے ذریعے نپاہ وائرس، ڈینگو اور زکا وائرس کے کیسز سامنے آئے تھے۔