ہفتوں تک خلاء میں رہنے کی وجہ سےخلاباز مختلف اور طاقتور کائناتی شعاعوں کی زد میں آجاتے ہیں۔
EPAPER
Updated: August 24, 2024, 10:46 AM IST | Agency | New York
ہفتوں تک خلاء میں رہنے کی وجہ سےخلاباز مختلف اور طاقتور کائناتی شعاعوں کی زد میں آجاتے ہیں۔
ناسا نے ہندوستانی نژاد خلاباز سنیتا ولیمز اور بوچ ولمور کو ۲؍جون کو ایک ہفتے کے لئے خلائی مشن پر بھیجا تھا۔ اس کے بعد سے وہ اب تک زمین پر واپس نہیں آ سکے۔ طیارے میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے وہ تقریباً دو ماہ سے خلا میں معلق ہیں۔ جس کی وجہ سے اب ان کی صحت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ناسا کی رپورٹ کے مطابق وہ اگلے سال فروری ۲۰۲۵ءسے پہلے زمین پر واپس نہیں آسکیں گے۔ ماہرین ِصحت کے مطابق مہینوں خلا میں رہنے کی وجہ سے خلابازوں کا ڈی این اے خطرے میں پڑ نے کا قوی امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ ناسا کی رپورٹ کے مطابق درحقیقت خلاء میں رہتے ہوئے انسانی جسم میں کئی ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو صحت کو بہت زیادہ اور ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہیں۔ماہرین کے مطابق خلاء میں زیادہ وقت تک رہنے کی وجہ سے خلاباز مختلف کائناتی شعاعوں کی زد میں آجاتے ہیں۔ چونکہ وہاں انہیں زمین کا فضائی حفاظتی حصار اور زمین کا مقناطیسی میدان میسر نہیں ہوتا ہے اس لئے وہ مسلسل ان شعاعوں کی زد پر رہتے ہیں جو بہت زیادہ توانائی کے ذرات سے بنتی ہیں۔
ان شعاعوں سے براہ راست تعلق میں آنےکی وجہ سے خلابازوں کے ڈی این اے متاثر ہونے لگے ہیں بلکہ ڈی اے این پر ریسرچ کرنے والے ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ان طاقتور کائناتی شعاعوں کی وجہ سے انسانی جسم میں موجود ڈی این اے کی تاریں ٹوٹ ٹوٹنے لگتی ہیں اور ان میںناقابل بیان اور غیر مرئی تبدیلیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے جینیاتی تفاوت بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ خلابازوں کی صحت سے متعلق سب سے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ اگرچہ ناسا تابکاری کی سطح پر مسلسل نظر رکھ رہا ہے لیکن سنیتا ولیمز کے معاملے میں یہ زیادہ خطرناک ہے کیونکہ وہ ایک خاتون خلاباز ہیں اور ان پر تابکاری کے اثرات ہر دو طرح سے کسی بھی مرد خلاباز کے مقابلے میں زائد ہوسکتے ہیں۔جس کی وجہ سے ان کی ذہنی صحت بھی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔
ایک اندیشہ یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ زیادہ عرصے تک خلا میں رہنے کی وجہ سے جسمانی رطوبتوں میں بھی تبدیلی واقع ہونے لگتی ہے کیوں کہ چاند کی کشش ثقل جس طرح سے زمین کے پانی کو کھینچتی ہے اور اس سے سمندروں میں مدو جزر پیدا ہوتے ہیں اسی طرح خلاء میں اس کی قوت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہےجس کی وجہ سے خون کے سرخ ذرات تک متاثر ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ زیادہ تیزی سے تباہ ہونے لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ خلائی شعاعوں کی وجہ سے خلاباز کی نسوں پر پڑنے والا آکسیڈیٹیو تناؤ ،خون کے سرخ خلیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ساتھ ہی زیادہ دیر تک خلا میں رہنے کی وجہ سے دِل مائیکرو گریویٹی میں ٹھیک سے کام نہیں کر پاتا جس کی وجہ سے دل کی ساخت میں تبدیلیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں دل کے ضرورت سے زیادہ بڑا ہونے ، دھڑکن کم ہو جانے یا پھر دل میں موجود معمولی برقی رَو کے متاثر ہونے کا سبب بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ خلائی شعاعوں کی وجہ سے مختلف طرح کے کینسر کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ خلا سے واپس آنے کے بعد کئی خلابازوں نے بینائی سے متعلق مسائل بھی بتائے ہیں کیوں کہ کشش ثقل نہ ہونے کی وجہ سے آنکھوں پر شدید دبائو پڑتا ہے اور آنکھوں کے اطراف کی رگیں متاثر ہوجاتی ہیں۔ ناسا کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے کچھ پریشانیاں دونوں ہی خلابازوں کی صحت میں نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ ان کے لئے خلاء میں سب سے بڑا مسئلہ تنہائی بھی ہے جس سے انہیں مسلسل نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔