• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

انڈونیشیا: ساحل پر ۹۰؍ روہنگیا بے یار و مددگار زندگی گزارنے پر مجبور

Updated: October 31, 2024, 8:06 PM IST | Jakarta

حکام کے مطابق انڈونیشیا کے مغربی حصے کے ایک ساحل پر صبح ۴؍ بجے ۹۰؍ روہنگیا پائے گئے جنہیں اسمگلر چھوڑ کر فرار ہوگئے تھے۔ ان میں سے ۸؍ شدید بیمار ہیں جنہیں اسپتال لے جایا گیا ہے جبکہ قریب ہی ۶؍ لاشیں ملی ہیں۔

Photo: PTI
تصویر: پی ٹی آئی

آج انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ، درجنوں روہنگیا پناہ گزینوں کو انڈونیشیا کے مغربی حصے کے ایک ساحل پر بے یار و مددگار چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ ان میں بچے بھی شامل ہیں جبکہ ان کے قریب ۶؍ روہنگیا کی لاشیں بھی ملیں۔ میانمار میں ظلم و ستم کی شکار اس اقلیت کے ہزاروں افراد ہر سال اسمگلروں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ یہ افراد بہتر مستقبل کی تلاش میں ملائیشیا یا انڈونیشیا پہنچنے کیلئے کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں۔ مشرقی آچے کے ایک گاؤں کے اہلکار سیفول انور نے بتایا کہ پناہ گزینوں کو جمعرات کی صبح سے پہلے صوبہ آچے کے ساحل سے ۱۰۰؍ میٹر کے فاصلے پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس گروپ میں ۴۶؍ خواتین، ۳۷؍ مرد اور ۷؍ بچے شامل تھے جبکہ مقامی لوگوں کو ساحل کے کنارے ۶؍ لاشیں ملی ہیں۔ مقامی باشندوں کے مطابق یہ لوگ صبح ۴؍ بجے یہاں ملے۔ سیفول نے کہا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ کوئی کشتی تھی جو انہیں لے کر آئی تھی۔ ۸؍ بیمار پناہ گزینوں کو طبی علاج کیلئے لے جایا گیا ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: دوسری سہ ماہی میں سونے کی مانگ ۱۸؍فیصد بڑھی

مشرقی آچے کے قائم مقام ضلعی سربراہ امر اللہ ایم ردا نے صحافیوں کو بتایا کہ پناہ گزینوں کو اس وقت تک ساحل پر خیموں میں رکھا جائے گا جب تک کہ حکام انہیں پناہ نہیں دیتے۔ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے کہا کہ وہ آنے والوں کے بارے میں جانتا ہے لیکن مزید معلومات فراہم نہیں کر سکتا۔ آچے کے قائم مقام گورنر صفریزل نے صحافیوں کو بتایا کہ حالیہ آمد کیلئے ’’انسانی اسمگلنگ مافیا‘‘ ذمہ دار ہے۔ اس ماہ مغربی انڈونیشیا میں آنے والوں کا یہ تیسرا گروپ ہے، جس میں ۱۵۰؍ سے زیادہ پناہ گزین آچے اور دیگر ۱۴۰؍ شمالی  سماترا صوبے میں پہنچے ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق جنوری ۲۰۲۳ء سے مارچ ۲۰۲۴ء کے درمیان ۲۵۰۰؍ روہنگیا کشتیوں کے ذریعے آچے پہنچے۔
ہر سال، ہزاروں روہنگیا، بنگلہ دیش سے ملائیشیا تک ۴؍ ہزار کلومیٹر کا خطرناک سفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے ملٹی ملین ڈالر کے انسانی اسمگلنگ آپریشن کو ہوا ملتی ہے۔انڈونیشیا اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن کا دستخط کنندہ نہیں ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اسے پناہ گزینوں کو لینے کیلئے مجبور نہیں کیا جا سکتا، اس کے بجائے پڑوسی ممالک سے بوجھ بانٹنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ بہت سے آچنی، جو خود کئی دہائیوں کے خونی تنازعے کی یادیں رکھتے ہیں، اپنے ساتھی مسلمانوں کی حالت زار پر ہمدردی رکھتے ہیں، لیکن دوسرے کہتے ہیں کہ سالانہ اتنی بڑی تعداد میں آمد ان کے صبر کا امتحان ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK