• Mon, 23 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

پیرس اولمپکس ۲۰۲۴ء: فلسطینی کھلاڑی عنقریب روانہ ہوں گے

Updated: July 17, 2024, 7:35 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

یزن البواب، ویلری ترازی، فارس بداوی، وسیم ابو سال۔ یہ نام ( انگریزی اخبارات سے لئے گئے ہیں اس لئے املا غلط ہوسکتا ہے) بڑی حد تک غیر متعارف ہیں اس لئے کم ہی لوگ جانتے ہونگے کہ ان کے درمیان کون سی قدر مشترک ہے۔ یہ اور ایسے کئی نام ہیں جن کے ذکر پر ایک مظلوم قوم اور ملک کی تصویر اُبھرتی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

یزن البواب، ویلری ترازی، فارس بداوی، وسیم ابو سال۔ یہ نام ( انگریزی اخبارات سے لئے گئے ہیں  اس لئے املا غلط ہوسکتا ہے) بڑی حد تک غیر متعارف ہیں  اس لئے کم ہی لوگ جانتے ہونگے کہ ان کے درمیان کون سی قدر مشترک ہے۔ یہ اور ایسے کئی نام ہیں  جن کے ذکر پر ایک مظلوم قوم اور ملک کی تصویر اُبھرتی ہے۔ اس لئے کہ جب ظلم شدید ہو اور انتہا کو پہنچا ہوا ہو تو کوئی دوسری خبر مشتہر نہیں  ہوپاتی۔ آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ مذکورہ افراد فلسطینی جواں  سال کھلاڑی ہیں  اور پیرس اولمپکس میں  عنقریب فلسطین کی نمائندگی سے مشرف ہونگے۔ یہ قدر اُن میں  مشترک ہی نہیں ، اُن کا طرۂ امتیاز بھی ہے۔ اُنہیں خوشی ہے کہ وہ ایک عالمی اسٹیج پر اپنے اُس ملک کی نمائندگی کرینگے جسے ہمہ وقت اسرائیلی جبر کا سامنا رہتا ہے، جس کے پاس وسائل نہیں  ہیں ، جس کے شہریوں  کو اندرون ِ ملک بھی نقل و حمل کی آزادی نہیں  ہے اور جنہیں  بہت سے ممالک ویزا نہیں  دیتے۔
 فلسطین کا پرچم لہراتا ہوا۷؍ یا ۸؍ اتھلیٹس کا یہ قافلہ پیرس اولمپکس کیلئے روانہ ہونے کو ہے۔ ۲۶؍ جولائی تا ۱۱؍ اگست اولمپک کھیلوں  کے ۳۳؍ ویں  ایڈیشن میں  جہاں  ۲۰۰؍ سے زائد ملکوں  کے کھلاڑی مختلف مقابلوں  میں  زور آزمائی کرینگے، اِن ۷۔۸؍ کھلاڑیوں  کو ایسے ملک کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہوگا جو ۷؍ اکتوبر سے شروع ہونے والی بھیانک جنگ سے متاثر ہے۔ ہرچند کہ ان کھلاڑیوں  کا تعلق غزہ سے نہیں  بلکہ مغربی کنارہ سے ہے مگر کون کہہ سکتا ہے کہ پڑوس میں  لگاتار بمباری سے روزانہ قیامت برپا ہوتی ہو اور یہ سکون سے رہتے ہوں ! 
 یقیناً نہیں ۔ ان کا علاقہ اسرائیلی فوجی جارحیت کا براہ راست نشانہ بھلے ہی نہ ہو مگر غزہ کے اپنے بھائیوں  کیلئے ان کے دل نہ دہلتے ہوں  ایسا نہیں  ہوسکتا۔ بلاشبہ ان کا دل زخمی اور ذہن پریشان ہوگا، انہیں  مقابلے کی تیاری جیسی تیاری کا موقع نہیں  ملا ہوگا اور ان کی تربیت جیسی تربیت بھی نہیں  ہوئی ہوگی اس کے باوجود اگر یہ پیرس اولمپک کیلئے روانہ ہورہے ہیں  تو یہ اِن کی غیر معمولی جرأت اور حوصلہ ہے جس کی ستائش کئے بغیر وہ لوگ بھی نہیں  رہ سکتے جو اسرائیل کے بالواسطہ یا بلاواسطہ حامی ہیں ۔ یہ کھلاڑی باکسنگ، جوڈو، سوئمنگ، شوٹنگ اور تائیکونڈو کے مقابلوں  میں  اپنے مدمقابل کو پٹخنی دے کر فلسطین زندہ باد کا نعرہ لگانے کیلئے بے چین ہیں ۔ 
 کھیل کے مقابلوں  کے تعلق سے پیش گوئی نہیں  کی جاسکتی اس لئے ہم یہ کہنے سے قاصر ہیں  کہ یہ کھلاڑی کتنے تمغے لے کر وطن لوٹیں  گے مگر یہ ضرور کہہ سکتے ہیں  کہ ان کا عالمی پلیٹ فارم تک پہنچنا (جوکہ پہلی بار نہیں  ہے) ہی اسرائیل اور امریکہ کی جارحیت کو خاک چٹانے جیسا ہے۔ عالمی کھیلوں  میں  شمولیت ایسی ہے جیسے یہ کھلاڑی اقوام متحدہ جیسے بڑے اداروں  کی فلسطینی رُکنیت کیلئے اپنی سی کوشش کررہے ہوں ۔ یہ کھلاڑی اس بات کا پیغام دینگے کہ اسرائیلی فوجیوں  نے بھلے ہی جارحیت میں  کوئی کمی نہ کی ہو مگر وہ ہمارے عزم، ارادے اور ’’مستقبل ہمارا ہے‘‘ کے یقین کو نہیں  توڑ سکے۔ اولمپک کھیلوں  کی تیاری آسان نہیں  ہوتی۔ ان کھلاڑیوں  کی راہ میں  دوسروں  سے ہزار گنا زیادہ دشواریاں  تھیں ۔ خبریں  کھنگالنے پر پتہ چلا کہ یہ لوگ قاہرہ میں  موجود اپنے کوچ نادر جیوسی سے آن لائن ٹریننگ لیتے ہیں ۔
  غزہ کی جنگ میں  ۳۰۰؍ سے زائد اتھلیٹ جاں  بحق ہوئے ہیں ۔ مذکورہ بالا کھلاڑیوں  کی شرکت اور کامیابی اُن اتھلیٹس کو بہترین خراج عقیدت ہوگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK