• Fri, 27 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اسماعیل ہانیہ: ہم وطنوں کے چہیتے اور اسرائیل کیلئے خوف کی علامت تھے

Updated: August 01, 2024, 12:04 PM IST | Gaza

غزہ جنگ میں اپنے بھائی،  بیٹوں اور پوتے پوتیوں  کی شکل میں خاندان کےتقریباً ۶۰؍ افرادکو کھودینے کے بعد بھی استقامت کی مثال قائم کرنےوالے ہانیہ فلسطین کی جدوجہد آزادی کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

A day before his assassination, Ismail Haniyeh talking to the Supreme Leader of Iran. Photo: PTI.
اپنے قتل سے ایک روز قبل اسماعیل ہانیہ ایران کے سپریم لیڈر سے گفتگو کرتےہوئے۔ تصویر: پی ٹی آئی۔

غزہ جنگ کے دوران یکے بعد دیگرے اپنے بھائیوں، بیٹوں اور پوتے پوتیوں کی شکل میں   خاندان کے کم وبیش ۶۰؍ افراد کوکھو دینے کے بعد بھی عالمی سطح پراستقامت کی علامت بن کر ابھرنے والے اسماعیل ہانیہ کا شمار فلسطین کی تحریک مزاحمت کے اُن قائدین میں ہوتا تھا جو دلیری اور شجاعت کی بنا پر عوام میں مقبول تھے۔ 
منگل اور بدھ کی درمیانی رات انہیں  تہران میں  دھوکے اور انتہائی بزدلانہ طریقے سے قتل کئے جانے کی ذمہ داری اسرائیل نے بھلے ہی نہیں  لی مگر نیتن یاہو حکومت میں  شامل ایک وزیر نے ان کی شہادت پر جشن مناکر یہ اشارہ دے دیا ہے کہ اسرائیل اس حملے کے پس پشت ہے۔ ۶۲؍ سال کی عمر میں  جام شہادت نوش کرنےوالے اسماعیل ہانیہ نے غزہ کے شاطی رفیوجی کیمپ میں ایسے گھرانے میں  آنکھیں  کھولیں   جو ۱۹۴۸ء میں فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کے غاصبانہ قیام کی وجہ سے عسقلان میں  اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہواتھا۔ 
غزہ شہر میں  واقع اسلامک یونیورسٹی میں عربی ادب کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران  ہی ہانیہ نے فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں  حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ یونیورسٹی میں  تعلیم کے دوران انہوں  نے ۱۹۸۳ء میں   ’’اسلامک اسٹوڈنٹس بلاک‘‘ میں  شمولیت اختیار جس نے بعد میں  حماس کے قیام کی راہ ہموارکرنے میں  اہم رول ادا کیا۔ اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطین میں  دسمبر ۱۹۸۷ء میں   جب پہلی تحریک اتفاضہ شروع ہوئی تو ہانیہ مظاہرہ میں شامل نوجوانوں میں  پیش پیش تھے۔ اسی سال حماس کا قیام عمل میں  آیا اورہانیہ اس کے نوجوان اراکین میں  شامل تھے۔ شجاعت اور قائدانہ صلاحیتیوں کے باعث انہوں  نے تنظیم میں بہت جلد اہم مقام حاصل کرلیا اور حماس کے بانی اور روحانی پیشوا شیخ احمد یاسین کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہوگئے۔ 
اسرائیل نے انہیں  کم از کم ۳؍ بار قید کیا۔ سب سے طویل قید ۳؍ سال کی تھی جس کے بعد ۱۹۹۲ء میں   عبد العزيز الرنتيسي اورمحمود الزهار جیسے دیگر سینئر لیڈروں اور حماس کے سیکڑوں  اراکین کے ساتھ انہیں  ملک بدر کرکے لبنان بھیج دیا گیا تھا۔ ایک سال بعد اوسلو معاہدہ پردستخط ہوئے اور ہانیہ کی غزہ واپسی ممکن ہوئی۔ یہاں    انہیں   اسرائیل کی طویل قید کے بعد ۱۹۹۷ء میں  رہا ہونے والے حماس کے روحانی پیشوا شیخ  احمد یاسین کی قربت حاصل ہوئی۔ اسماعیل ہانیہ نے ان کے نائب کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس اہم عہدہ پر پہنچنے کےبعد وہ اسرائیل کے نشانے پر آگئے کیوں  کہ تب تک اسرائیل نے فلسطینی قیادت کو چُن چُن کر نشانہ بنانے کی سازش پر کام کرنا شروع کردیاتھا۔ ستمبر۲۰۰۳ء میں اسرائیل نے  شیخ احمد یاسین اور ہانیہ کو فضائی حملے میں  مارنے کی کوشش کی مگر دونوں  لیڈر بال بال بچ گئے۔ جس عمارت کو تل ابیب نے نشانہ بنایا تھا، اس سے وہ دونوں محض چند سیکنڈ پہلے نکل گئے تھے۔ چند ہی مہینوں  بعد شیخ یاسین کو فجر کی نماز کےبعد مسجد سے باہر نکلتے وقت نشانہ بنایا گیا اور وہ شہید ہوگئے۔ اگلے مہینے تل ابیب نے عبد العزيز الرنتيسي کو ہیلی کاپٹر سےحملہ کرکے  شہید کردیا۔ اس کے بعد ہانیہ حماس کے سینئر ترین لیڈر بن کر ابھرے۔ فلسطینی قیادت میں  ان کا قد۲۰۰۶ء میں  اس وقت اور بلند ہوا جب حماس نے پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا اور محمود عباس کی فتح کو بری طرح شکست سے دوچار کرتے ہوئے شاندار کامیابی حاصل کی۔ اسماعیل ہانیہ نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا اور فلسطینی اتھاریٹی میں  حماس کی پہلی حکومت بنی۔ الیکشن کے نتائج اور حماس کے اقتدار میں  آنے سے امریکہ اوریورپی ممالک چونک گئے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں  نے فلسطینی اتھاریٹی کی امداد روک دی کیوں  کہ ان کی نظر میں حماس ’’دہشت گرد‘‘ تنظیم تھی۔ عالمی دباؤ کے پیش نظر ۲۰۰۷ء میں  فلسطینی اتھاریٹی کے صدر محمود عباس نے اسماعیل ہانیہ کی حکومت کو برطرف کردیا جس کے نتیجے میں   ۲۰۰۷ء میں  غزہ میں   حماس کی آزادانہ حکومت قائم ہوگئی۔ 
۲۰۱۷ء میں  اسماعیل ہانیہ نے خالد مشعل کی جگہ لی اور حماس کی سیاسی اکائی کے سربراہ مقرر کئے گئے۔ اس کے بعد سے وہ کبھی ترکی، کبھی قطر تو کبھی قاہرہ سے سفارتی محاذ پر حماس کی قیادت کرتے رہے اور اس طرح حماس کا عالمی چہرہ بن گئے۔ ۷؍ اکتوبر کو غزہ میں  جنگ شروع ہونے کے بعد اسرائیل نے واضح کردیا تھا کہ حماس کی قیادت اس کے نشانہ پر ہے۔ جنگ میں اسماعیل ہانیہ اپنے ۳؍ بیٹے، ایک بھائی اور کئی ناتی پوتوں  کو کھوچکے تھے۔ وہ خود تین بھائی تھے جبکہ ان کی ۱۳؍ اولادیں  ہیں جن میں سے  ۳؍ بیٹے غزہ کی جنگ میں  کام آچکے ہیں۔ ۲۰۲۳ء میں  ان کے خاندان پر کئے گئے سب سے بڑے حملے میں  بیک وقت ۱۴؍ افراد نے جام شہادت نوش کیا جس میں  ان کے بھائی بھی شامل تھے۔ کچھ دنوں  بعد ایک اور حملے میں  انہوں  نے اپنے پوتے اور سب سے بڑی پوتی کو کھودیا۔ ۱۰؍ اپریل ۲۰۲۴ء کے حملے میں  انہوں  نے اپنے تین بیٹوں حازم، عامر اور محمدکو کھودیا۔ حماس کے مطابق ۷؍اکتو کے بعد سےہانیہ خاندان کے ۶۰؍ سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK