Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ میں غذا کا شدید بحران،۲۰؍ لاکھ کی آبادی امداد کی محتاج

Updated: April 21, 2025, 12:29 PM IST | Agency | Washington

اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام نے حالات کو انتہائی تشویشناک قراردیا،بتایا کہ غزہ میں مقیم خاندان نہیںجانتے کہ ان کا کھانا کہا ں سے اور کب آئے گا ؟

Children queue to get food at a center in Gaza. Photo: INN
غزہ میں بچےایک سینٹر پرکھانا لینے کیلئے قطار میں ہیں۔ تصویر: آئی این این

غزہ میں غذا کا شدید بحران ہے۔ اسرائیل کی جانب سے نئے حملوں اورامداد کی ترسیل روکنے کے نتیجے میں وہاں صورتحال انتہائی تشویشناک بن چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی غذائی پروگرام(ڈبلیوایف پی) نے کہا ہے کہ غزہ میں مکین خاندان نہیں جانتے کہ ان کا اگلا کھانا کہاں سے اور کب آئے گا؟ ڈبلیو ایف پی کے مطابق غزہ میں ۲۰؍ لاکھ کی آبادی کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے اوروہ پوری طرح بیرونی امداد کی محتاج ہے۔ فلسطین نیوز اینڈ انفو ایجنسی(وفا)نے ڈبلیو ایف پی کے کچھ گھنٹوں کے دوران جاری کردہ متعدد بیانات کا حوالہ دیا ہے جن میں بتایا گیا ہےکہ غزہ میں اناج کی شدید قلت ہے اور یہ خطہ شدید انسانی بحران کی زد میں ہے۔ 
  عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ غزہ کے لوگ قابض اسرائیل کی جانب سے اس پٹی پر ۷؍ ہفتوں سے ناکہ بندی مسلط کی گئی ہے جس کی وجہ سے علاقے کے لوگ بھوکے اور پیاسے ہیں۔ اتوار کو ’ایکس‘ پلیٹ فارم پر شائع ہونے والے ایک بیان میں پروگرام نے عالمی ادارہ خوراک نے تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ شہریوں کی ضروریات کو ترجیح دیں، انسانی ہمدردی کے کام کرنے والے کارکنوں کی حفاظت کریں اورغزہ تک امداد کیلئے فوری رسائی کی اجازت دیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:معروف ملیالم اداکار موہن لال، میسی کی دستخط شدہ جرسی ملنے پر خوشی سے سرشار

 اقوام متحدہ کے پروگرام نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ میں خاندانوں کو نہیں معلوم کہ ان کا اگلا کھانا کہاں سے آئے گا۔ اس کی پوسٹ کے ساتھ ایک ویڈیو کلپ بھی پوسٹ کیا جس میں لکھا ہے ’لیباریٹری اگلی اطلاع تک بند ہے‘ اور ’ غزہ کو خوراک کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔ ‘
 حکومت، انسانی حقوق اور بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق۲؍ مارچ سے اسرائیل نے غزہ پٹی کی گزرگاہوں کو خوراک، طبی امداد اور دیگر سامان کے داخلے کیلئے بند کر دیا ہے، جس سے فلسطینی بدترین انسانی بحران سے دوچار ہوئے ہیں۔ 
 ۲؍ دن قبل اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین (یو این آر ڈبلیو اے) نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ غزہ پر اسرائیلی ناکہ بندی جو تقریباً ۷؍ ہفتوں سے جاری ہے، ۷؍ اکتوبر۲۰۲۳ء کے بعد کی ابتدائی مدت سے زیادہ شدید ہے۔ ’انروا‘ نے کہا کہ غزہ پٹی میں ۱۸؍مارچ سے اسرائیل کے نئے حملوں کی وجہ سے۴؍ لاکھ ۲۰؍ ہزار افراد دوبارہ بے گھر ہو چکے ہیں ۔ مارچ ۲۰۲۵ ء کے اوائل میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا تھا۔ ۱۹؍ جنوری سے نافذ العمل جنگ بندی منصوبے کے پہلے مرحلے کے اختتام پر اسرائیلی وزیر اعظم نے اسے توڑ دیا تھا۔ تاہم عبرانی میڈیا کے مطابق نیتن یاہو نے دوسرے مرحلے کے آغاز سے انکار کیا اور ۱۸؍ مارچ سےغزہ میں حملے دوبارہ شروع کردئیے۔ 
اسرائیلی وزیر خزانہ کا غزہ پر مکمل قبضےکا مطالبہ 
 دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزل اسموٹریچ نے غزہ پٹی پر مکمل قبضے اور ضرورت پڑنے پر اسرائیل کی جانب سے فوجی حکمرانی کا مطالبہ کیا ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ’ڈی پی اے‘ کی رپورٹ کے مطابق اسموٹریچ نے ’ایکس‘ پر عبرانی زبان میں لکھا کہ یہ ہماری حفاظت کا راستہ ہے اور یرغمالوں کو جلد سے جلد وطن واپس لانے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے اس بیان سے اتفاق کیا کہ غزہ کی جنگ حماس کی مکمل شکست اور غزہ پٹی سے بے دخلی کے بغیر ختم نہیں ہونی چاہئے۔ سنیچر کو نیتن یاہو نے ایک ریکارڈ شدہ ویڈیو خطاب میں اپنے موقف کا اعادہ کیا تھا۔ دوسری جانب غزہ میں ۲۴؍ گھنٹوں کےد وران مزید۴۴؍ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور۱۴۵؍ زخمیوں کواسپتالو ں میں داخل کیا گیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK