پورے ملک میں مظاہرے، جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کامعاہدہ نہ ہونے دینے پر برہمی، فوری الیکشن کا مطالبہ، موجودہ حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کا عزم۔
EPAPER
Updated: December 23, 2024, 9:30 AM IST | Tal Aviv
پورے ملک میں مظاہرے، جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کامعاہدہ نہ ہونے دینے پر برہمی، فوری الیکشن کا مطالبہ، موجودہ حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کا عزم۔
زائد از ایک سال سے مسلسل جنگ اور ۴۵؍ ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت کے بعد بھی ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو حماس کے ذریعہ یرغمال بنائے گئے اسرائیلی باشندوں کو رہا کروانے میں نیتن یاہو کی ناکامی کے بعد اسرائیل کے عوام اُن سے تنگ آچکے ہیں۔ ان کے استعفیٰ اور ملک میں فوری طور پر الیکشن منعقد کروانے کیلئے سنیچر کو ایک بار پھر پورے ملک میں عوام سڑکوں پر اُتر آئے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ نیتن یاہو اقتدار پر قابض رہنے کیلئےجنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں اوراس کیلئے یرغمالوں کی رہائی کےمعاہدہ میں رخنہ اندازی کررہے ہیں۔
کہاں کہاں احتجاج کیاگیا؟
نیتن یاہو جو اسرائیل کی تاریخ کی سب سے سخت گیر دائیں بازو کے نظریات کی حامل حکومت کی قیاد ت کررہے ہیں، کے خلاف سنیچر کی شام جن شہروں میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کا انعقاد کیاگیا ان میں دارالحکومت تل ابیب کے علاوہ حیفہ، بیر شیبا اورمغربی یروشلم اہم ہیں۔ سب سے بڑا مظاہرہ تل ابیب میں وزارت دفاع کے باہر ہوا۔ مظاہرین نے بینر اور پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن میں نیتن یاہو اوران کی حکومت کے اراکین کی پُر زور مذمت کی گئی تھی۔
دفتر وزارت دفاع کےقریب کپلان اسٹریٹ پر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیراعظم یائر لاپید نے عوام کو آئندہ الیکشن میں موجودہ حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کیلئے للکارا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کی پارٹی نیتن یاہو سے کسی طرح کے مذاکرات کریگی، نہ پیچھے ہٹے گی۔ انہوں نے وزیراعظم نیتن یاہو کو ان کی عرفیت سے مخاطب کرتے ہوئے للکارا کہ ’’ہم جیتیں گے، بی بی مضبوط نہیں ہورہے ہیں۔ عوام ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ ملک میں الیکشن نہیں ہورہے ہیں کیوں کہ وہ الیکشن سے خوفزدہ ہیں۔ وہ حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ ‘‘
مذاکرات میں رخنہ اندازی
ترکی خبر رساں ایجنسی ’’انادولو‘‘ کے مطابق تل ابیب میں مظاہروں کے انعقادسے قبل اسرائیلی یرغمال متان زنگاؤکر نے نیتن یاہو پر الزام لگایا کہ وہ یرغمالوں کی رہائی کیلئے زیر بحث مذاکرات میں رخنہ اندازی کررہے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے نیتن یاہو غزہ میں جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور جنگ بندی کے ساتھ ساتھ ہی ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ نہیں ہونے دے رہے ہیں۔ معمر خاتون نے اپنے بیٹے سمیت تمام یرغمالوں کی رہائی پر زور دیتے ہوئے جنگ بندی کی بھی وکالت کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’جنگ بندی نہ کوئی رکاوٹ ہے اور نہ ہی کوئی قیمت ہےبلکہ تمام قیدیوں کو واپس لانےکیلئے جنگ کو بند کرناہی ہمارا مقصد ہونا چاہئے۔ ‘‘ واضح رہے کہ زائد از ایک سال کی جنگ، غزہ کو ملبے میں تبدیل کرنے اور ۴۵؍ ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کردینے کے باوجود نیتن یاہو کی حکومت حماس جیسی چھوٹی سی تنظیم کی قید سے اپنے ۱۰۱؍ یرغمالوں کو رہا نہیں کرواسکی۔ حماس نے اس بات کے ثبوت پیش کئے ہیں کہ مذکورہ یرغمال اس کی قید میں زندہ ہیں۔ کچھ یرغمال غزہ پر خود اسرائیلی حملوں کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ہیں۔
جنگ بندی کی کتنی امید، کتنی ناامیدی
ایک طرف جہاں امریکی اور دیگر ذرائع کا کہناہے کہ حماس اور اسرائیلی جنگ بندی معاہدہ کے قریب پہنچ چکے ہیں، وہیں ترک خبر رساں ایجنسی’انادولو‘ نے رپورٹ دی ہے کہ اسرائیلی حکومت اب بھی اس معاہدہ سے بہت دور ہے۔ اسرائیلی حکام کے حوالے سے ملنےوالی اطلاعات کے مطابق تل ابیب حماس کو شکست دیئے بغیر جنگ نہیں بند کرنا چاہتا۔ یہ بات اہم ہے کہ پورے غزہ کو ملبے میں تبدیل کردینے کے باوجود اسرائیل حماس کو شکست دینے میں ناکام ہے۔ ایک طرف جہاں اسرائیل میں نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں وہیں دوسری جانب اپنا سب کچھ کھودینےوالے اہل غزہ حماس کے خلاف ایک لفظ بولتے ہوئے سنائی نہیں دے رہے ہیں۔ جنگ بندی سے متعلق قاہرہ میں جاری بات چیت کے تعلق سے اسرائیل کے ایک اہلکار بتایا کہ ابھی بہت سے امور ہیں جن کو طے کیا جانا باقی ہے۔ مذکورہ افسر کے مطابق’’حماس کو تباہ کئے بغیر نیتن یاہو کا جنگ بند کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ‘‘