گولان کی چوٹی پر شام کی جانب بفرزون پر قبضہ کر لیا، ۲؍ دنوں میں۳۱۰؍ فضائی حملے کئے، اسلحہ کے مراکز کو نشانہ بنایا، سب کچھ ختم کردیا اسے اپنی سلامتی کیلئے محدود اقدام قرار دیا، دمشق کی جانب برّی فوج کی پیش قدمی کی تردید کی، عرب ممالک نے نازک حالات کا فائدہ اٹھانے اور شام کی زمین پر قبضہ کی کوشش پرتل ابیب کی سخت مذمت کی۔
شام کے مجدل الشمس میں عام شہری بشار الاسد کے اقتدار سے بے دخل ہونے کا جشن منار ہے ہیں۔ تصویر: اے پی / پی ٹی آئی
شام میں بشارالاسد حکومت کے تختہ پلٹ کے بعد عبوری حکومت کے قیام سے قبل عدم استحکام کی کیفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ۲؍ دنوں میں تل ابیب نے شام پر۳۱۰؍ فضائی حملے کرکے اس کے فوجی ٹھکانوں اور کئی ہوائی اڈوں کو تباہ کردیا۔ اس سے قبل اس نے گولان کی پہاڑیوں پر واقع بفر زون میں شام کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے اپنے فوجیوں کو تعینات کردیاہے۔ اسرائیلی فوجوں نے پیر اور منگل کو شام پر تارخ کا سب سے بڑا فضائی حملہ کیا جس سے دمشق دہل اٹھا۔ اس کے ساتھ بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی ’’اے پی‘‘ نے اپنے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں اپنے ٹینکوں کے ساتھ دمشق کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ عرب ممالک نے شام کی زمین پر اسرائیلی قبضے کی جہاں شدید مذمت کی ہے وہیں اسرائیل نے شام میں فوجی پیش قدمی کی تردید کی ہے۔ اسرائیلی حکومت کے مطابق فضائی حملے’’اپنی سلامتی اور تحفظ کیلئے محدود وقتی اقدام‘‘ ہیں نیز یہ کہ اسرائیلی فوجیں گولان کی پہاڑیوں پر بفر زون کے باہر نہیں نکلی ہیں۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے شام کا دفاعی ڈھانچہ پوری طرح تباہ کردیاہے۔
بشارالاسد کی بے دخلی کے بعد ۳۱۰؍ فضائی حملے
شام میں بشارالاسدحکومت کا تختہ پلٹنے کے بعد اسرائیل سے اسرائیل شام کے مختلف علاقوں پر متعدد حملے کرچکاہے۔ مجموعی طورپر کئے گئے ان ۳۱۰؍ حملوں میں حلب میں اسلحہ بنانے والی فیکٹریوں اور دمشق میں اسلحہ کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ منگل کو کئے جانے والے حملے کو دمشق کی تاریخ کا سب سے شدید فضائی حملہ قراردیاگیاہے۔ تل ابیب نے شام کے تین اہم فضائی اڈوں پر بمباری کی ہے، جن میں قمشلی، شنشار بیس، اور عقبہ کے فضائی اڈے شامل ہیں۔ یہ حملے شام کے مختلف علاقوں بشمول حمص اور دمشق کے جنوب مغربی حصوں میں کئے گئے۔ شام میں انسانی حقوق کی رصد گاہ ’’المرصد‘‘ کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمان نےالزام لگایاکہ اسرائیل شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام کی فوجی قوت اور صلاحیتیں تباہ کر رہا ہے۔
بفر زون پر قبضہ کی کوشش
ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے درجنوں ہیلی کاپٹر اور جنگی طیاروں نے شامی فوجی اڈوں کو نشانہ بنا یاہے جس کا مقصد گولان کی پہاڑیوں کے نزدیک اقوام متحدہ کے بفرزون پر قبضہ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ، دمشق میں ایک تحقیقی مرکز اور الیکٹرانک وارفیئر کے مرکز پر بھی کئی حملےکئے گئے۔ ان حملوں کے بعد علاقے میں صورت حال کشیدہ ہو گئی ہے، جبکہ شام کی جانب سے فوری ردعمل کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ ماہرین کے مطابق ان حملوں کا مقصد شام کے دفاعی نظام کو کمزور کرنا اور اسٹریٹجک اثاثوں کو نقصان پہنچانا ہو سکتا ہے۔ خطے میں جاری تنازعے نے پہلے ہی بین الاقوامی سطح پر تشویش پیدا کر رکھی ہے۔
عرب ممالک سخت برہم، برطانیہ نے بھی مذمت کی
سعودی عرب، قطر، عراق اور ایران نے گولان کی پہاڑیوں پر شام کی زمین پر اسرائیل کے قبضے کی سخت مذمت کی ہے اور یاددہانی کرائی ہے کہ یہ ۱۹۷۴ء کے معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔ برطانیہ نے مذمت کی اور کہا کہ’’ہمارا موقف واضح ہے، گولان پہاڑیاں مقبوضہ زمین ہیں اور ہم اسرائیل کے ساتھ اس کےالحاق کو تسلیم نہیں کرتے۔ ‘‘
اقوام متحدہ اپوزیشن فورسیز کے مثبت طرزعمل سے مطمئن
شام کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی سفیر نے بشارالاسد کے تختہ پلٹنے والے جنگجو گروپ حیات التحریر الشام کے اب تک کے اقدامات پر اطمینان کا اظہا ر کرتے ہوئے انہیں ’’مثبت پیغام ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں شام کے حالات بیان کرتے ہوئے گیر پیڈرسن نے کہا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ نئی عوامی حکومت کی تشکیل سے قبل بننے والی عبوری حکومت میں جتنا ممکن ہوسب کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ حیات التحریر الشام جس کا نام پہلے النصرہ تھاکو اقوام متحدہ نے دہشت گرد تنظیموں کے زمرے میں شامل کررکھا ہے۔ یہ فیصلہ بدلنے کا اشارہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’حیات التحریر الشام کی پیش رو تنظیم النصرہ کو دہشت گرد قراردینے کے ریزولیوشن کو ۹؍ سال ہوچکے ہیں، وہ حیات التحریر الشام اور دیگر جنگجو گروپ شام کے عوام کو اتحاد کا مثبت پیغام دے رہے ہیں۔‘‘
اسرائیل ۱۹۷۴ء کے معاہدہ کی خلاف ورزی کا مرتکب
اقوام متحدہ نے گولان کی پہاڑیوں میں شام کی جانب بفرزون کے اندر اسرائیلی فوج کی پیش قدمی کو ۱۹۷۴ء کے اسرائیل-شام جنگ بندی معاہدے کی ’خلاف ورزی‘ قرار دیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت سرحد پر بفرزون میں دونوں طرف سے فوج تعینات نہ کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
ترک نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی ورلڈ کے مطابق اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے کہا ہے کہ’’ بفرزون میں فوج یا کسی فوجی سرگرمی کا وجود نہیں ہونا چاہیے، اسرائیل اور شام پر لازم ہے کہ وہ۱۹۷۴ء کے معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد جاری رکھیں اور گولان کے استحکام کا تحفظ کریں۔‘‘یاد رہے کہ اسرائیل نے۱۹۶۷ء کی ۶؍ روزہ جنگ میں گولان کی پہاڑیوں کے ایک حصے پر قبضہ کر لیا تھا، پھر اکتوبر۱۹۷۳ء کی جنگ ختم ہونے کے بعد۱۹۷۴ءمیں اسرائیلی اور شامی افواج کے درمیان جنگ بندی کامعاہدہ طے پایا، اس معاہدہ کے بعد اقوام متحدہ کے زیر کنٹرول ہتھیاروں سے خالی ایک بفرزون قائم کیا گیا ، اسرائیل نے گولان کے مقبوضہ حصے کو۱۹۸۱ءمیں اپنی ریاست میں ضم کر لیا، اس اقدام کو امریکہ کے سوا کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔