انقلاب نے چند ماہرین سے یہ جاننا چاہاکہ مسلمانوں کے لائق ستائش جوش و خروش کا کتنا فائدہ ہوگا اور اس کی وجہ سے کیا وقف بل کو واپس لیا جائیگا ؟
EPAPER
Updated: September 17, 2024, 12:05 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai
انقلاب نے چند ماہرین سے یہ جاننا چاہاکہ مسلمانوں کے لائق ستائش جوش و خروش کا کتنا فائدہ ہوگا اور اس کی وجہ سے کیا وقف بل کو واپس لیا جائیگا ؟
وقف ترمیمی بل کے خلاف مسلمانوں نے جس بیداری کا ثبوت دیا اُس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہوگی۔ جے پی سی کیلئے روانہ کئے گئے چار کروڑ سے زائد ای میل اپنے آپ میں ایک مثال ہی نہیں تاریخ ہے۔ ظاہر ہے کہ زیادہ سے زیادہ ای میل روانہ کرکے حکومت پر دباؤ ڈالنا حکمت عملی ہے۔ اس میں کتنی کامیابی ملتی ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا مگر فی الحال باعث اطمینان یہ ہے کہ مسلمانوں نے ملی ّ تنظیموں کی آواز پر لبیک کہا اور پُرجوش طریقے سے کہا۔ روزنامہ انقلاب نے مسلمانوں کے جوش و خروش اور کیو آر کوڈ کو اسکین کرکے اپنی رائے کا ای میل بھجوانے کی سلسلہ وار رپورٹنگ کی۔ اس دوران، اِس اخبار نے محسوس کیا کہ عوام کے ذہنوں میں سوال ہوگا کہ ملی تنظیموں کی جاری کی گئی اس مہم کا کتنا فائدہ ہوگا؟ اس سوال کا جواب دینے کی کوشش ہم نے اپنے طور پر نہیں کی بلکہ اس کیلئے چند سربرآوردہ شخصیات سے رابطہ قائم کیا اور اُن سے یہ جاننا چاہا کہ چا ر کروڑ سے زائد ای میل سے کتنا فرق پڑے گا، کتنا فائدہ ہوگا۔
سربرآوردہ شخصیات سے اس نمائندے نے تین سوال کئے: (۱) بھیجے گئے ای میل کا کیا ہوگا؟ (۲) جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی ان ای میلوں کا کیا کرے گی، اور (۳) وقف کے سلسلے میں حکومت کے مجوزہ اقدام پر یہ ای میل کس طرح اثر انداز ہونگے؟
ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ایم آئی ایم کے سربراہ رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے اس نمائندہ کو بتایا کہ ’’جے پی سی ان ای میلوں کا جائزہ لے گی اور اس کا اہتمام کرنے والی تنظیموں میں سے جسے محسوس کریگی اپنے پاس بلائے گی اور اُس کے اعتراضات کواپنی سفارشات کا حصہ بنا کر رپورٹ پیش کریگی۔‘‘ اسدالدین اویسی کے مطابق ’’جہاں تک اتنی بڑی تعداد میں بھیجی جانےوالی آراء کے اثر انداز ہونے کی بات ہے تو ہمیں کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے قبل یہ سمجھناچاہئے کہ جمہوریت میں عوام کی رائے کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، اسے نظر انداز کرنا آسان نہیں
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ فی الوقت حتماًکچھ کہنا جلد بازی ہوگی۔ طلاق ثلاثہ کے وقت بھی مسلمانوں نے بڑی تعداد میں اعتراضات درج کرائے تھے۔‘‘
راجیہ سبھا کے سابق ڈپٹی چیئرمین اور سینئر کانگریسی لیڈر کے رحمان خان نے ان سوالوں کا مفصل جواب دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’پہلے مرحلے میں جے پی سی یہ جائزہ لے گی کہ حمایت میں رائے دینے والے کتنے ہیں اور مخالفین کی تعداد کتنی۔ اس کے بعد جن شقوں کی مخالفت کی گئی ہے جے پی سی اُنہیں خاص طور پر نشان زد کریگی اور اپنی رائے اور سفارشات کے ساتھ حکومت کو رپورٹ پیش کرے گی۔ تیسرا مرحلہ جہاں تک اثر انداز ہونے کا ہے تو اس کی پوری امید ہے کہ ایسا ہوگا۔‘‘
کے رحمان خان کے بقول: ’’وقف کا معاملہ بالکل مختلف ہے اور یہ خالص مسلمانوں کا معاملہ ہے اس میں کسی دوسرے مذہب کے لوگوں کا کوئی لینا دینا یا شراکت نہیں ہے اس لئے جو رائے دی گئی اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے ۔ کروڑوں شہریوں کی رائے مسترد کرناآسان نہیں ہوگا۔‘‘ کے رحمان خان کا کہنا ہے کہ ’’یہ بل آئین کی تین دفعات سے متصادم ہے۔ یہ مذاہب کو دی گئی آزادی کے بھی خلاف ہے۔ اسلئے یہ ممکن ہے کہ حکومت اپنے نفع نقصان کے حوالے سے اسے فوری طور پر پاس نہ کرے یا کچھ وقت کے لئے ٹال دے مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اسے پاس کرنے میں کامیابی حاصل کرلے۔
کے رحمن خان سے یہ پوچھنے پر کہ بالفرض حکومت نے اسے پاس کروا لیا تو اسے رکوانے کا کیا طریقہ ہوگا؟ تو انہوں نے کہا کہ عدالت کا راستہ ہے جہاں جواب دینا حکومت کیلئے مشکل ہوگا کیونکہ وہ اس سوال سے بچ نہیں سکتی کہ جب دیگر فرقوں کے مذہبی اُمور میں کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے کی رکنیت یا عمل دخل قبول نہیں، آئین میں اس کی آزادی ہے تو پھر وقف کے تعلق سے یہ اصرار کیوں؟ انہوں نے مزید بتایا کہ وقف اُمور میں ترمیم کی ضرورت نہیں تھی بلکہ ترمیم کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ خود بی جے پی نے ۲۰۰۹ء میں اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے پر وقف سے متعلق ہماری سفارشات کو نافذ کریگی (کے رحمان کمیٹی سفارشات)۔ پھر آخر یہ بل کیوں لایا گیا؟
ایڈوکیٹ صغیر خان کا کہنا ہے کہ ’’یہ بل آئین کی روح کے منافی ہے۔ جے پی سی کا کام فیصلہ صادر کرنا نہیں، محض حالات کا جائزہ لینا اور اپنی سفارش پیش کرنا ہے۔ وہ بھیجی گئی رائے میں سے جنہیں اس شعبے کا ماہر یا جانکار سمجھے گی، انہیں بلائے گی اور پیش کردہ اعتراضات کا جائزہ لے کر رپورٹ دیگی۔ میرے خیال میں ان رایوں کو مسترد کرنا آسان نہیں کیونکہ بہت بڑی تعداد میں آراء بھیجی گئی ہیں اور اس سے بڑی بات یہ کہ وہی مخالفت کررہے ہیں جن کی فلاح وبہبود کیلئے ترمیم کا جواز تلاش کیا گیا ہے۔ اس لئے قوی اُمید ہے کہ بھیجی گئی رائےاثر انداز ہوگی۔ خوش آئند یہ ہے کہ اس تعلق سے مسلمانوں کے تمام طبقات نے کھل کر مخالفت کی ہے۔