• Sat, 04 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

نیپلز: غزہ میں ’وقت تھم گیا ہے‘، اطالوی فنکار ایدوآردو کستالدو کا منفرد فن پارہ

Updated: December 31, 2024, 10:02 PM IST | Naples

نیپلز، اٹلی کے معروف فوٹوگرافر اور فنکار ایدوآردو کستالدو اپنے فن پاروں کے ذریعے برسوں سے فلسطین کی حمایت میں آواز بلند کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے گھڑیوں کی مدد سے فلسطینیوں کے مشکل وقت کو پیش کیا۔

Artwork by Eduardo Castaldo. Photo: INN
ایدوآردو کستالدو کا فن پارہ۔ تصویر: آئی این این

معروف اطالوی فنکار اور فوٹوگرافر ایدوآردو کستالدو جو برسوں سے فلسطینی کاز کے حامی ہیں اور اکثر و بیشتر اپنے منفرد فن پاروں سے دنیا کو فلسطین پر اسرائیلی مظالم اور فلسطین کے مشکل وقت کی داستان سناتے ہیں۔ ۲۸؍ دسمبر کو نیپلز، اٹلی میں جاری ایک نمائش میں انہوں نے ایک منفرد فن پارہ بنایا جسے غزہ میں ’’وقت تھم گیا ہے‘‘ نام دیا۔ اس فن پارے کے ذریعے انہوں نے غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی مہم کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

اسے بنانے اور پھر ہجوم کے سامنے پیش کرنے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہورہا ہے جسے صارفین کی جانب سے اب تک لاکھوں لائکس مل چکے ہیں اور سیکڑوں مرتبہ شیئر کیا جاچکا ہے۔ ایک ہلکے زرد رنگ کی دیوار پر انہوں نے ۴؍ گھڑیاں لگائیں۔ ہر گھڑی کے نیچے ایک شہر کا نام درج ہے اور گھڑی میں موجودہ وقت نظر آرہا ہے۔ نیپلز کی گھڑی میں صبح کے ۱۱؍ بجنے والےہیں، نیویارک کی گھڑی میں صبح کے ۵؍ بج رہے ہیں، شنگھائی کی گھڑی میں شام کے ۵؍ بج رہے ہیں اور غزہ کی گھڑی میں رات کے تقریباً ۹؍ بج کر ۲۰؍ منٹ ہوئے ہیں۔ یہ وہی وقت ہے جب ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو اسرائیل نے غزہ پر اپنے وحشیانہ حملے کی شروعات کی تھی۔ ویڈیو میں فنکار غزہ کی گھڑی پر لگا شیشہ ہتھوڑی سے اس طرح توڑ دیتے ہیں کہ اس پر دراڑیں پڑجاتی ہیں۔ اس کے بعد وہ غزہ لکھا ہوا تختہ ٹیڑھا کردیتے ہیں، اور اپنے اس فن پارے کو غزہ میں ’’وقت تھم گیا ہے‘’ کا نام دیتے ہیں۔

 واضح رہے کہ ایدوآردو کستالدو چند برسوں قبل مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فوٹوگرافی کیلئے گئے تھے اور وہاں رہنے والے فلسطینیوں کے حالات نے ان کی آنکھیں نم کردی تھیں۔ انہوں نے کئی تصویریں لیں مگر انہیں کبھی فروخت نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک مردہ ضمیر اور سخت دل والا انسان ہی کسی کے مشکل وقت کو تصویروں میں قید کرکے پیسے کماسکتا ہے۔تاہم، انہوں نے اپنے آبائی شہر نیپلز کے ’’اسٹریٹ آرٹ‘‘ میں ان تصویروں کی نمائش کی جن کے ذریعے انہوں نے فلسطینیوں کی مشکل کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی۔ 

گزشتہ سال نیپلز ہی میں ان کا ایک فن پارہ تیزی سے وائرل ہوا تھا۔ یہ ایک میورل ہے جو نیپلز کے ایک مکان کی دیوار پر اس انداز میں بنایا گیا ہے کہ ایک مقامی خاتون اپنی کھڑکی سے دو اسرائیلی فوجیوں پر پانی پھینک رہی ہے۔ یہ دونوں فوجی دیوار پر چڑھ کر اس کے پاس پہنچنا چاہتے ہیں۔ اس میورل کا نام تھا: ’’نیپلز صہیونیت کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ نیپلز سے تل ابیب کی براہ راست پروازیں ہیں جن سے اس شہر میں اسرائیلی سیاحوں کا داخلہ آسان ہے، یہی وجہ ہے کہ ایدوآردو نے اپنے فن پاروں سے یہ پیغام دیا ہے کہ نیپلز صہیونیت کا سخت مخالف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مَیں چاہتا ہوں کہ نیپلز دنیا بھر میں صہیونیت کے خلاف سب سے طاقتور آواز بن کر ابھرے اور یہ سب سے بڑا ’’اینٹی زیئونسٹ‘‘ شہر کہلائے۔‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ شہر تیزی سے صہیونیت کے خلاف مزاحمت بن کر ابھر رہا ہے۔ یہاں کی سڑکوں، مکانوں ، دکانوں، نکڑوں اور چوراہوں پر فلسطین حامی آرٹ جابجا نظر آتے ہیں۔ دنیا بھر کے فنکار یہاں آکر اپنے فن پاروں کی نمائش کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ۲۰۲۱ء میں ایدوآردو کستالدو نے ایک لمبی دیوار پر میورل بنایا تھا۔ یہ ایک اسرائیلی جیل تھی جس کے پیچھے بے شمار فلسطینی قید ہیں۔ اس کا نام تھا ’’ویلکم ٹو بیت لحم‘‘ (بیت لحم میں خوش آمدید)۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK