نیپلز، اٹلی کے معروف فوٹوگرافر اور فنکار ایدوآردو کستالدو اپنے فن پاروں کے ذریعے برسوں سے فلسطین کی حمایت میں آواز بلند کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے گھڑیوں کی مدد سے فلسطینیوں کے مشکل وقت کو پیش کیا۔
EPAPER
Updated: December 31, 2024, 10:02 PM IST | Naples
نیپلز، اٹلی کے معروف فوٹوگرافر اور فنکار ایدوآردو کستالدو اپنے فن پاروں کے ذریعے برسوں سے فلسطین کی حمایت میں آواز بلند کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے گھڑیوں کی مدد سے فلسطینیوں کے مشکل وقت کو پیش کیا۔
معروف اطالوی فنکار اور فوٹوگرافر ایدوآردو کستالدو جو برسوں سے فلسطینی کاز کے حامی ہیں اور اکثر و بیشتر اپنے منفرد فن پاروں سے دنیا کو فلسطین پر اسرائیلی مظالم اور فلسطین کے مشکل وقت کی داستان سناتے ہیں۔ ۲۸؍ دسمبر کو نیپلز، اٹلی میں جاری ایک نمائش میں انہوں نے ایک منفرد فن پارہ بنایا جسے غزہ میں ’’وقت تھم گیا ہے‘‘ نام دیا۔ اس فن پارے کے ذریعے انہوں نے غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی مہم کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
Italian artist and photographer Eduardo Castaldo conveyed through an exhibition that "time stands still" in Gaza, which has been under Israeli attack.
— TRT World (@trtworld) December 30, 2024
Castaldo presented this work, which highlights the suffering of children in Gaza, in Naples, one of Italy`s cultural and tourist… pic.twitter.com/z1rlls8Yi6
اسے بنانے اور پھر ہجوم کے سامنے پیش کرنے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہورہا ہے جسے صارفین کی جانب سے اب تک لاکھوں لائکس مل چکے ہیں اور سیکڑوں مرتبہ شیئر کیا جاچکا ہے۔ ایک ہلکے زرد رنگ کی دیوار پر انہوں نے ۴؍ گھڑیاں لگائیں۔ ہر گھڑی کے نیچے ایک شہر کا نام درج ہے اور گھڑی میں موجودہ وقت نظر آرہا ہے۔ نیپلز کی گھڑی میں صبح کے ۱۱؍ بجنے والےہیں، نیویارک کی گھڑی میں صبح کے ۵؍ بج رہے ہیں، شنگھائی کی گھڑی میں شام کے ۵؍ بج رہے ہیں اور غزہ کی گھڑی میں رات کے تقریباً ۹؍ بج کر ۲۰؍ منٹ ہوئے ہیں۔ یہ وہی وقت ہے جب ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو اسرائیل نے غزہ پر اپنے وحشیانہ حملے کی شروعات کی تھی۔ ویڈیو میں فنکار غزہ کی گھڑی پر لگا شیشہ ہتھوڑی سے اس طرح توڑ دیتے ہیں کہ اس پر دراڑیں پڑجاتی ہیں۔ اس کے بعد وہ غزہ لکھا ہوا تختہ ٹیڑھا کردیتے ہیں، اور اپنے اس فن پارے کو غزہ میں ’’وقت تھم گیا ہے‘’ کا نام دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ ایدوآردو کستالدو چند برسوں قبل مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فوٹوگرافی کیلئے گئے تھے اور وہاں رہنے والے فلسطینیوں کے حالات نے ان کی آنکھیں نم کردی تھیں۔ انہوں نے کئی تصویریں لیں مگر انہیں کبھی فروخت نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک مردہ ضمیر اور سخت دل والا انسان ہی کسی کے مشکل وقت کو تصویروں میں قید کرکے پیسے کماسکتا ہے۔تاہم، انہوں نے اپنے آبائی شہر نیپلز کے ’’اسٹریٹ آرٹ‘‘ میں ان تصویروں کی نمائش کی جن کے ذریعے انہوں نے فلسطینیوں کی مشکل کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی۔
گزشتہ سال نیپلز ہی میں ان کا ایک فن پارہ تیزی سے وائرل ہوا تھا۔ یہ ایک میورل ہے جو نیپلز کے ایک مکان کی دیوار پر اس انداز میں بنایا گیا ہے کہ ایک مقامی خاتون اپنی کھڑکی سے دو اسرائیلی فوجیوں پر پانی پھینک رہی ہے۔ یہ دونوں فوجی دیوار پر چڑھ کر اس کے پاس پہنچنا چاہتے ہیں۔ اس میورل کا نام تھا: ’’نیپلز صہیونیت کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ نیپلز سے تل ابیب کی براہ راست پروازیں ہیں جن سے اس شہر میں اسرائیلی سیاحوں کا داخلہ آسان ہے، یہی وجہ ہے کہ ایدوآردو نے اپنے فن پاروں سے یہ پیغام دیا ہے کہ نیپلز صہیونیت کا سخت مخالف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مَیں چاہتا ہوں کہ نیپلز دنیا بھر میں صہیونیت کے خلاف سب سے طاقتور آواز بن کر ابھرے اور یہ سب سے بڑا ’’اینٹی زیئونسٹ‘‘ شہر کہلائے۔‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ شہر تیزی سے صہیونیت کے خلاف مزاحمت بن کر ابھر رہا ہے۔ یہاں کی سڑکوں، مکانوں ، دکانوں، نکڑوں اور چوراہوں پر فلسطین حامی آرٹ جابجا نظر آتے ہیں۔ دنیا بھر کے فنکار یہاں آکر اپنے فن پاروں کی نمائش کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ۲۰۲۱ء میں ایدوآردو کستالدو نے ایک لمبی دیوار پر میورل بنایا تھا۔ یہ ایک اسرائیلی جیل تھی جس کے پیچھے بے شمار فلسطینی قید ہیں۔ اس کا نام تھا ’’ویلکم ٹو بیت لحم‘‘ (بیت لحم میں خوش آمدید)۔