جے پی سی نے ۶۵؍سوالات پر مشتمل ایک سوالنامہ جماعت اسلامی ہند کو دیا تھا، کمیٹی وقف کی تاریخ ،اس کا ریکارڈ اوراستفادہ کنندگان کے بارے میںجاننا چاہتی ہے۔
EPAPER
Updated: January 20, 2025, 12:51 PM IST | Agency | New Delhi
جے پی سی نے ۶۵؍سوالات پر مشتمل ایک سوالنامہ جماعت اسلامی ہند کو دیا تھا، کمیٹی وقف کی تاریخ ،اس کا ریکارڈ اوراستفادہ کنندگان کے بارے میںجاننا چاہتی ہے۔
جماعت اسلامی ہند نے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی ( جے پی سی ) کی طرف سےاوقاف سے متعلق اٹھائے گئے سوالوں کے تحریری جواب سونپ دیئے ہیں ۔ میڈیا کو جاری ایک بیان میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے کہا کہ وقف ( ترمیمی ) بل ۲۰۲۴ء کے متعلق۴؍ نومبر۲۰۲۴ء کو جے پی سی سے جماعت کے وفد کی تفصیلی ملاقات کے بعد جماعت کو جے پی سی کی جانب سے۶۵؍ سوالات پر مشتمل سوالنامہ موصول ہوا تھا، جماعت کی جانب سے تحریری طور پر تمام سوالات کے جامع جوابات جے پی سی کو پیش کر دیے گئے ہیں ۔
مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے پوچھے گئے سوالات بنیادی طور سے آئین کی توضیحات، انتظامی اور قانونی ڈھانچے سے متعلق تھے۔ جی پی سی کے ممبران وقف کے مذہبی اور اس کے سیکولر پہلوؤں کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔ وہ یہ بھی معلوم کرنا چاہتے تھے کہ کیا وقف املاک سماج کے سبھی طبقوں کو فائدہ پہنچارہی ہیں یا اس کا فائدہ صرف مسلمانوں تک ہی محدود رہتا ہے۔ اس ضمن میں قانونی پیچیدگیاں، وقف کا استعمال کرنے والے افراد کا نظریہ، اوقاف پر غیر قانونی قبضہ اور وقف بورڈ کے کردار کے بارے میں سوالات پوچھے گئے تھے۔ جے پی سی کے سوالوں میں وقف بورڈوں میں غیر مسلموں کو شامل کرنے، اس میں شفافیت اور نگرانی کے عمل اصلاحات کے تعلق سے بھی پوچھا گیا ۔ جے پی سی ممبران نے وقف کی ابتدا، اس کی تاریخ اور اس کی مذہبی حیثیت کے بارے میں بھی سوالات کئے۔
جماعت اسلامی کی طرف سے داخل کئے گئے تحریری جواب میں وقف ( ترمیمی) بل ۲۰۲۴ء کے بارے میں مسلم معاشرہ کی گہری تشویش کو اجاگر کیا گیا۔ ملک معتصم خان نے کہا ’’ وقف (ترمیمی ) بل اوقاف کے تقدس اور اس کے اختیارات کو کمزور کرتا ہے جبکہ نظام اوقاف کی مضبوطی مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور مذہبی ترقی کیلئے نہایت ضروری ہے۔ نئے بل کا مسودہ وقف کے انتظامات کرنے والوں کے اختیارات کو کم کرنے والا، مسجدوں ، قبرستانوں اور درگاہوں جیسے قدیم اور تاریخی اوقاف کیلئے خطرہ پیدا کرنے والا معلوم ہوتا ہے۔ جن اوقاف کے پاس معمول کے دستاویزات نہیں ہیں لیکن وہ صدیوں سے عوام کی خدمت کیلئے وقف ہیں ، ان کو ہٹانا یا ختم کرنے کا پروویژن، ملکیت کے نئے دعوؤں کو جنم دینے اور قانونی تنازعات پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ وقف ( ترمیمی ) بل ضلع کلکٹروں کو اوقاف کی پوزیشن کو طے کرنے کا اختیار دیتا ہے جس کی وجہ سے مفادات کے ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوسکتی۔ کیوں کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اوقاف کو تصرف میں لینے، ان پر غیر قانونی قبضہ کرنے والوں میں خود سرکاری محکمے شامل ہوتے ہیں۔