• Fri, 15 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مدارس کے تحفظ کیلئے جمعیۃ علماء سرگرم ، کمیٹی تشکیل دی

Updated: September 07, 2022, 10:14 AM IST | Lucknow

سروےکے حکم پر ذمہ داران میں شدید بے چینی ، مولانا ارشد مدنی نے کہاکہ ’’ مدارس حاشیے پر رہنے والے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں‘‘، تحفظاتی لائحہ عمل بھی تیار کیا گیا

Maulana Mahmood Madani while addressing the meeting of protection madrasas. Maulana Arshad Madani was also present on the stage.
مولانا محمود مدنی تحفظ مدارس کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ۔اسٹیج پر مولانا ارشد مدنی بھی موجود تھے۔(تصویر: انقلاب )

 یوپی حکومت کے ذریعہ دینی مدارس کے سروے کے اعلان کے بعد حکومت کی نیت اور کارکردگی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ اس کی وجہ سے مدارس کے ذمہ داران میں بھی بے چینی پائی جارہی ہے۔ اسی  ملک کے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم جمعیۃ علماء ہند  سرگرم ہو گئی ہے اور اس نے  ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو مدارس کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کا کام کرے گی۔ سرکاری دبائو سے آزاد مدارس بالخصوص یوپی کے مدارس کو درپیش چیلنج کے تناظر میں منگل کو  جمعیۃ علماء کے صدر دفتر نئی دہلی میں ’تحفظِ مدارس‘ کے عنوان سے ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں دارالعلوم دیوبند ، ندوۃ العلماء لکھنؤ،مظاہر علوم سہارنپورسمیت یوپی کے دو سو سے زائد مدارس کے مہتمم و نمائندے شریک ہوئے۔ اجلاس میں یوپی سرکار کے سروے پر روشنی ڈالی گئی اور اس تعلق سے پاورپوائنٹ پریزینٹیشن کے ذریعہ تفصیل بتائی گئی۔
  اجلاس میں جہاں یہ محسوس کیا گیا کہ قانو ن و ضابطوں پر اندرونی اصلاح کی ضرورت ہے وہیں سرکار کے رویے پر بھی سوال اٹھاگیا۔ اب آگے کی کارروائی کے لئےایک اسٹیرنگ کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں مولانا ارشد مدنی ،مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی،مولانا محمد سفیان قاسمی ،مولانا مفتی محمد راشد اعظمی، مولانا سید اشہد رشیدی،مولانا حکیم الدین قاسمی،مولانا نیاز احمد فاروقی ، مولانا مفتی اشفاق احمد اعظمی ،کمال فاروقی ، مجتبیٰ فاروق ،مولانا سید ازہر مدنی  اورمولانا محمود مدنی کو شامل کیا گیا ہے۔  یہ اصحاب  مدارس کے تعلق سے حکومتی کارروائیوں کا جائزہ لینے کے بعد لائحہ عمل تیار کریں گے ۔ اس تعلق سے مولانا محمود مدنی نے کہا کہ دینی مدارس ہمارا بہت ہی عظیم اثاثہ ہیں۔ہمارے بزرگوں نے جو یہ نظام دیا ہے ، وہ دنیا میں کہیں نہیں ہے ، اس لیے ہر قیمت پر ان کی حفاظت کی جائے گی ۔
 اجلاس میں باہمی مشاورت کے بعد تین نکاتی تجویز بھی منظور ہوئی کہ  مدراس میں اندرونی نظام کے اعتبار سے جو قانونی خامیاں ہیں ، ان کو جلد ازجلد درست کرایا جائے ،جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے ایک ہیلپ لائن بنائی جائے اور ٹیم تیار کی جائے جو کاغذات کی درستگی میں اہل مدارس کا تعاون کرے اور این آئی او ایس یا کسی اور شکل میں عصری تعلیم کا سلسلہ مدارس میں شروع کیاجائے ۔
  اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء مولانا سید ارشد مدنی  نےکہا کہ دینی مدارس ، فرقہ پرستوں کی آنکھوں کے کانٹے ہیں ، اس  لئے ہمیں ان کی نیتوں کو سمجھنا چا ہئے۔  مدارس  کےنظام کو درست کرنے کی بات اپنی جگہ ہے، لیکن ہمیں اپنے مدارس کی بقاءو تحفظ کیلئے کمربستہ ہونا ہو گا ۔ ہم نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ امن وامان کے ساتھ ہمارے دینی اداروں کو چلنے دیا جائے   لیکن فرقہ پرست ہمارے وجود کو ختم کرنے کی تمنا رکھتے ہیں، جسے ہم ہرگز نہیں ہو نے دیں گے ۔   انہوں نے کہا کہ یہ مدارس  ان طلبہ کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں جو حاشیے پر ہیں۔ انہی مدارس کی وجہ سے ملک کی خواندگی اتنی  بڑھی ہے۔ 
 دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ مدارس کے اندرونی نظام کو درست کرنے پر ہمیں غور کرنا چا ہئے بالخصوص دارالاقامہ وغیرہ سے متعلق جو نظام ہے ، اس کی پاسداری کی ہر ممکن کوشش کی جائے تاہم ظالم کے ارادوں سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔انھوں نے جمعیۃ علماء ہند کو مبارک بادی کہ اتنی مختصر مدت میں اس نے کافی معلوماتی اجلاس منعقد کیا ۔ مولانا محمد سفیان قاسمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جمعیۃعلماء  کی صدسالہ تاریخ گواہ ہے کہ اس نے ہمیشہ ملک وملت کی رہ نمائی ہے  ۔ہم امید کرتے ہیں کہ اس مشکل وقت میں بھی و ہ اہل مدارس کی رہ نمائی کرے گی ۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک ہیلپ لائن قائم کرنے کی تجویز بھی پیش کی  ۔
 دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ناظم اعلیٰ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی نمائندگی کرتے ہوئے مولانا عتیق احمد بستوی نے کہا کہ سروے میں مذکور سوالنامہ کا مقصد اصلاح نہیں بلکہ شرارت ہے ، اس  لئے فرقہ پرستی کی اس نئی سوچ کامعقول جواب دیا جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مشورہ دیا کہ سرکار کے ذمہ داروں سے بھی رابطہ کیا جائے۔ان کے علاوہ مفتی محمد صالح، مولانا سید حبیب احمد ،مولانا عبدالرحیم، مجتبیٰ فاروق، کمال فاروقی  اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ 

madrasas Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK