گزشتہ روز ہوئی میٹنگ میں جے ڈی یونے بھی سوال اٹھایا کہ ملک میں ایک ساتھ الیکشن کرانے کیلئے لوازمات کا انتظام کیسے ہوگا؟
EPAPER
Updated: January 10, 2025, 11:15 AM IST | Agency | New Delhi
گزشتہ روز ہوئی میٹنگ میں جے ڈی یونے بھی سوال اٹھایا کہ ملک میں ایک ساتھ الیکشن کرانے کیلئے لوازمات کا انتظام کیسے ہوگا؟
نئی دہلی ( ایجنسی ) : ’ایک ملک، ایک الیکشن‘ بل پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی پہلی میٹنگ گزشتہ روز ہوئی تھی جس میں اپوزیشن کے اراکین پارلیمنٹ نےمتعدد سوالات اٹھائے تھے۔ قابل ذکر ہے کہ اس میٹنگ میں بی جے پی کی اتحادی جے ڈی یو نے بھی اعتراض ظاہر کیاہے اورملک میں ایک ساتھ ا لیکشن کے قابل عمل ہونے اوراس کے نفاذ پر سوال اٹھایا۔ اپوزیشن نے جہاں اس بل کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھایا اور اسے ریاستوں کے حقوق چھیننے والاقراردیا ہے وہیں جے ڈی یو کا کہنا ہےکہ پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کیلئےلوازمات کا انتظام کیسے کیاجائے گا؟ جے ڈی یو اور اپوزیشن جماعتوں نے بل کی عمل آوری پر سوالات اٹھائے۔ یہ بل ملک میں بیک وقت انتخابات کے انعقاد کے لیے پارلیمنٹ کے آخری اجلاس میں پیش کیا گیا تھا۔
بی جے پی کی حلیف جماعت جے ڈی یو یہ جاننا چاہتی تھی کہ اگر ایک مدت میں کئی بار حکومتیں گرتی ہیں تو یہ بل انتخابی اخراجات کو کیسے کم کرے گا؟ وائی ایس آر سی پی کو ای وی ایم کے استعمال پر شبہ تھا اور اس نے مشورہ دیاکہ بیلٹ پیپر سے ووٹنگ کا نظام دوبارہ لایاجانا چاہئے۔ واضح رہےکہ پارلیمانی کمیٹی کی کارروائی خفیہ ہوتی ہے اور اس کی میٹنگوں کے دوران اراکین کے درمیان ہونے والی گفتگو کی تفصیلات کو عام نہیں کیا جاتا۔
مشترکہ پارلیمانی کمیٹی دو بلوں کی جانچ کر رہی ہے
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ۳۹؍ رکنی کمیٹی ۲؍بلوں کی جانچ کر رہی ہے۔ پہلا وہ آئینی ترمیمی بل ہے جس میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کی میعاد ایک ساتھ کرنے کا قانون ہے۔ دوسرا مرکز کے زیر انتظام علاقوں اور قومی راجدھانی دہلی کیلئے متعلقہ ایکٹ میں ترمیم کا ایک بل ہے۔ ان دونوں بلوں کا مقصدملک میں ایک ساتھ الیکشن کی راہ ہموار کرنا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے اعتراض کیا
کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کا ماننا ہے کہ بہ یک وقت انتخابات کا تصور آئین اور ملک کے وفاقی ڈھانچے کے خلاف ہے۔ ٹی ایم سی چاہتی ہے کہ کمیٹی اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لئے ایک سال کی توسیع طلب کرے کیونکہ پینل جس موضوع کی جانچ کر رہا ہے وہ بہت وسیع ہے۔ ٹی ایم سی نے حکومت کے اس دعوے کی بھی تردید کی ہے کہ مختلف اوقات میں انتخابات کا انعقاد پالیسیوں کے متاثر ہونے کا باعث بنتا ہے۔ ٹی ایم سی کا کہنا ہے کہ ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ صرف ان ریاستوں کو متاثر کرتا ہے جہاں انتخابات ہو رہے ہیں اور دوسری ریاستوں پر نہیں اس کے اثرات نہیں ہوتے۔
پرینکا گاندھی نےسوال اٹھایا
ذرائع سے موصولہ اطلاع کے مطابق اس میٹنگ کے دوران پہلی بار رکن پارلیمنٹ کے طور پر پارلیمنٹ پہنچنے والی اور اس کمیٹی کا حصہ بننے والی پرینکا گاندھی نے ایک ملک ایک الیکشن پر کہا کہ حکومت کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانے پرپیسوں کی بچت کیسے ہوگی؟ اگر پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات ہونے ہیں تو کیا اس کیلئےووٹنگ مشینیں دستیاب ہیں ؟
بل کے حامی اراکین پارلیمنٹ کا موقف
بل کی حمایت کرنے والے اراکین پار لیمنٹ نے ملک میں ۱۹۵۷ء کی مثال بھی دی۔ ذرائع کے مطابق ۱۹۵۷ء کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا کہ مذکورہ سال ۷-۶؍اسمبلیوں کی میعاد قبل از وقت تحلیل کر کے ایک ساتھ انتخابات کرائے گئے تھے۔ جس وقت یہ کیا گیا اس وقت آئین ساز اسمبلی کے چیئرمین ملک کے صدر کے عہدے پر فائز تھے۔
ذرائع کے مطابق اس میٹنگ کے دوران مہاراشٹر، ہریانہ اور جھارکھنڈ جیسی ریاستوں کی مثالیں بھی دی گئیں۔ جہاں لوک سبھا انتخابات کے چند مہینوں کے اندر اسمبلی کے انتخابات ہوتے ہیں اور اسمبلی انتخابات کے چند ماہ بعد ہی ممبئی میونسپل کارپوریشن جیسے انتخابات ہوتے ہیں یعنی انتخابات سال بھر ہوتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہیں۔