• Sat, 21 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اسوۂ ابراہیمی ؑ میں ہمارے لئے سبق ہے کہ آزمائشوں میں ثابت قدم رہیں

Updated: June 07, 2024, 4:38 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

قرآن مجید نے سرفرازی و سربلندی کو دو باتوں سے جوڑا ہے: ایک خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ، جس کا مثالی طریقہ نماز ہے، دوسرے : خدا کے راستے میں قربانی، جس کا علامتی عمل بقرعید اور حج کی قربانی ہے۔

At many places in the Holy Quran, it is emphasized to seek help from Allah through prayer. Photo: INN
قرآن مجید میں کئی مقامات پر نماز کے ذریعے اللہ سے مدد مانگنے کی تاکید کی گئی ہے۔ تصویر : آئی این این

انسانیت میں سب سے بڑھ کر خدا ترسی اور خدا کی خوشنودی کے لئے اپنے آپ کو قربان کردینے والا گروہ انبیاء علیہم السلام کا ہے۔ اللہ کے پیغمبر علم، ذہانت، شخصی وجاہت، جسمانی حسن و جمال، اخلاقی کمالات، خاندانی عزت و شرف ہر جہت سے سب سے زیادہ مکمل ہوا کرتے تھے؛ لیکن اللہ کے راستہ میں ہر طرح کی آزمائش اور ابتلاء سے بھی ان ہی کو گزرنا پڑتا تھا۔ وہ نہ صرف لوگوں کی بے احترامی کا زخم سہتے تھے؛ بلکہ ان کی زبان درازی اور سب وشتم کو بھی برداشت کرتے تھے؛ یہاں تک کہ جسمانی ایذاء رسانی سے بھی دوچار ہوتے تھے؛ لیکن یہ ساری چیزیں مل کر بھی ان کے پائے استقامت میں کوئی تزلزل پیدا نہیں کرتی تھیں، مخالفتوں اور زیادتیوں کے اس طوفان میں انہیں اللہ تعالیٰ ہدایت کا مینارہ بنا دیتا تھا اور ایسی سربلندی سے نوازتا تھا کہ نہ صرف اس عہد کے لوگ ان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے تھے؛ بلکہ رہتی دنیا تک کیلئے ان کا نام نقش جاوداں ہوجاتا تھا۔ 
جن پیغمبروں کو بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا اور قرآن نے ان کی داستان حیات کو قیامت تک آنے والی انسانیت کے لئے مشعل راہ بناکر محفوظ کردیا، ان میں ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات والا صفات ہے۔ آپؑ عراق کے ایک معزز قبیلہ کے فرزند تھے، جو اپنی ذاتی صلاحیت کے اعتبار سے بھی نمایاں حیثیت کے حامل تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے توحید اور شرک پر جو مباحثے فرمائے اس سے ان کی غیر معمولی ذکاوت، استدلالی قوت، فہم رسا اور قوت تفہیم ظاہر ہوتی ہے۔ پھر ان کی گفتگو میں جو نرمی، ملائمت، ناصحانہ اُسلوب اور داعیانہ تڑپ پائی جاتی ہے، اس سے ان کی بلند اخلاقی اور نرم خوئی، نیز انسانی ہمدردی کا بے پناہ جذبہ ظاہر ہوتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: سفر ِ حج اورسفر ِ آخرت

ان تمام خوبیوں کے باوجود جب وہ حق کی دعوت لے کر اُٹھے تو ایسا نہیں ہوا کہ ان کا استقبال کیا گیا ہو، ان کے لئے پھولوں کی سیج بچھائی گئی ہو اور قوم نے ان کا شکریہ ادا کیا ہو کہ وہ انہیں گمراہی کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے ہدایت کی روشنی کی طرف لے جارہے ہیں ؛ بلکہ انہیں ایسی آزمائشوں سے گزرنا پڑا کہ انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملے گی اور انہوں نے اتنی قربانیاں پیش کیں کہ اس سے بڑھ کر خدا کے راستہ میں جاں نثاری اور فداکاری کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں آتش ؛ بلکہ آتش فشاں میں ڈالا گیا، یہ ایسی آگ تھی جو پتھر کو بھی خاکستر بنانے کے لئے کافی تھی مگر مرضی ٔ ربانی کے سامنے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تسلیم و رضا کا حال یہ تھا کہ انہوں نے اُف بھی نہیں کی اور خدا سے بھی اس آزمائش سے نجات کیلئے فریاد نہیں کی، یہاں تک کہ خدائے رحیم کو خود اپنے اس بندۂ کامل پر رحم آیا اورآگ ان کے لئے پھول بن گئی، پھر انہیں اپنے دین اور ایمان کو بچانے اور اسے پھیلانے کے لئے وطن کی مانوس و محبوب سر زمین کو داغ فراق دینا اور ایک نا معلوم منزل (فلسطین) کی طرف روانہ ہوجانا پڑا۔ یہ صرف ان فضاؤں کی قربانی نہیں تھی، جن میں انہوں نے بچپن سے جوانی تک پوری زندگی گزاری تھی؛ بلکہ یہ تمام اعزہ اور اہل تعلق سے بھی ہمیشہ کیلئے منہ موڑ لینے اور جدا ہوجانے کا اعلان تھا۔ 
پھر ایک مرحلہ آیا جب خدا کی طرف سے حکم ہوا کہ ابراہیم اپنی زوجۂ محترمہ ( شہزادیٔ مصر حضرت ہاجرہ) کو فلسطین اور شام کے سبزہ زار سے نکال کر اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ مکہ کے بے آب گیاہ صحرا میں چھوڑ آئیں، نوجوان بیوی اور دُودھ پیتے بچے کو ایسی جگہ چھوڑ آنا اپنی جان کی قربانی سے بھی بڑھ کر تھا جہاں پانی کا ایک قطرہ بھی میسر نہیں تھا، اورجہاں آدم زاد کا جینا تو کجا پرندوں کا پرمارنا بھی مشکل تھا؛ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس حکم کے سامنے بھی سرِتسلیم خم کردیا۔ 
  اس کے باوجود قربانی کے مرحلے ابھی تمام نہیں ہوئے اور آزمائش کی دنیا ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ جوان بیٹا، جو اولاد سے نا اُمیدی کے بعد پیدا ہوا، اُس کے بارے میں حکم ہوا کہ اسے خود اپنے ہاتھوں اپنے رب کی خوشنودی کیلئے تہ ِتیغ کردو۔ یہ حکم خواب کے ذریعہ ہواتھا اور خواب میں تاویل کی گنجائش ہوتی ہے؛ لیکن بندۂ کامل حیلہ و حجت پر کیوں کر قناعت کرسکتا تھا؛ اس لئے آپ ؑنے اپنے بیٹے کی قربانی کا ارادہ کرلیا، اور بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی آخر جذبۂ ابراہیمی کے وارث تھے، انہیں کیسے عذر ہوسکتا ـتھا، انہوں نے بھی سرِ تسلیم خم کردیا اورباپ نے اپنے جگر گوشہ اور نور چشم کو رضائے ربانی کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا۔ البتہ خدا کو انسان کی قربانی مطلوب نہیں تھی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خود سپردگی کا امتحان مقصود تھا؛ اس لئے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بجائے پردۂ غیب سے آنے والے مینڈھے کی قربانی عمل میں آئی۔ 
 غرض کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات طیبہ کا قرآن کی روشنی میں مطالعہ کیا جائے توا س کا خلاصہ صرف دوباتیں ہوں گی: پہلی دعوت حق اور دوسری اس راہ میں قربانی و فداکاری۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کی خوشنودی و رضا کیلئے اپنے آپ کو مٹانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، اپنے آپ کو مٹایا، اپنے تعلقات کو مٹایا، بیوی او ر شیر خوار بیٹے کی محبت کو مٹایا اورجوان بیٹے کو مٹایا؛ لیکن قربانی اور اپنے آپ کو مٹانے کے عمل نے حضرت ابراہیم ؑ کو زندہ جاوید بنادیا۔ قرآن مجید نے متعدد مواقع پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے؛ چنانچہ فرمایا گیا کہ ہم نے اسے دنیا میں بھی منتخب کرلیا اور وہ آخرت میں بھی صالحین میں شمار ہوں گے : ’’اور کون ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے دین سے رُوگرداں ہو سوائے اس کے جس نے خود کو مبتلائے حماقت کر رکھا ہو، اور بے شک ہم نے انہیں ضرور دنیا میں (بھی) منتخب فرما لیا تھا اور یقیناً وہ آخرت میں (بھی) بلند رتبہ مقرّبین میں ہوں گے۔ (بقرہ: ۱۳۰)
 یہی بات ایک دوسرے موقع پر بھی فرمائی گئی: ’’اور ہم نے انہیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرمائی، اور بیشک وہ آخرت میں (بھی) صالحین میں سے ہونگے۔ ‘‘ (نحل: ۱۲۲)۔ اتنا ہی نہیں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعلیمات کو بقاء و دوام سے نوازا گیا:
’’اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اس (کلمۂ توحید) کو اپنی نسل و ذریّت میں باقی رہنے والا کلمہ بنا دیا تاکہ وہ (اللہ کی طرف) رجوع کرتے رہیں۔ ‘‘ (زخرف:۲۸) اُمت محمدیہ جو قیامت تک کیلئے ہدایت یافتہ گروہ ہے، اس سے کہا گیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی بھی تمہارے لئے آئیڈیل اورنمونہ ہے: ’’بے شک تمہارے لئے ابراہیمؑ میں اور اُن کے ساتھیوں میں بہترین نمونۂ (اقتداء) ہے۔ ‘‘ (ممتحنہ: ۴) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دُعاء کی تھی کہ بعد میں آنے والوں میں میرا ذکر خیر باقی رہے: ’’اور میرے لئے بعد میں آنے والوں میں (بھی) ذکرِ خیر اور قبولیت جاری فرما۔ ‘‘ (الشعراء:۸۴) 
یہ دُعاء اس شان سے قبول ہوئی کہ آج دنیا میں جو تین بڑے مذاہب ہیں یعنی اسلام، عیسائیت اور یہودیت، ان مذاہب کے پیروکار، حضرت ابراہیم ؑکی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں اور اسی نسبت کو اپنے لئے تمغۂ افتخار سمجھتے ہیں۔ یہ بلندی حضرت ابراہیم ؑ کو ان بے پناہ قربانیوں کے ذریعہ حاصل ہوئی، جن کا ذکر بالائی سطور میں کیا گیا۔ 
گروہِ انبیاء علیہم السلام میں سب سے زیادہ آزمائشوں سے جو شخصیت گزری، وہ پیغمبر اسلام جناب محمد الرسول اللہ ﷺ کی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو جس قدر اللہ کے قریب ہوتا ہے، وہ اسی قدر آزمائشوں سے گزرتاہے؛ اس لئے سب سے زیادہ آزمائش اللہ کے پیغمبروں پر آتی ہے، اور پیغمبروں میں سب سے زیادہ آزمائش مجھ پر آئی ہے۔ رسولؐ اللہ کی پوری سیرت مبارکہ اس پر گواہ ہے۔ اس سلسلہ میں وہ واقعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے، جس کے پس منظر میں آپؐ کو قربانی کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے قبل مکی زندگی کا ایک واقعہ ذہن میں تازہ کیجئے کہ آپؐ کے ایک صاحبزادہ حضرت عبد اللہ ؓ کی وفات ہوگئی، اس پر عاص بن وائل نے کہا کہ محمد (ﷺ) تو ابتر ہوگئے۔ (نعوذ باللہ) ’’ابتر ‘‘ سے مراد ہے بے نام و نشان ہوجانے والا شخص۔ عرب ایسے لوگوں کو ابتر کہتے تھے، جن کی صرف بیٹیاں ہوں ؛ کیونکہ ان پر ان کا خاندانی سلسلہ ختم ہوجاتا تھا۔ 
اس سورہ میں پہلے تو رسولؐ اللہ کی دلداری کی گئی کہ ہم نے آپ کو حوض کوثر سے نوازا ہے، جس سے نہ صرف آپؐ کی اُمت کو راحت نصیب ہوگی ؛ بلکہ وہ میدان حشر میں آپؐ کا امتیاز ہوگا لہٰذا آپ اپنے پروردگار کیلئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے، اور دشمنوں کی باتوں سے متاثر نہ ہوئیے، اللہ انہی کو بے نام و نشان کردینگے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں دشمن سے مراد خاص طور پر ابوجہل، عاص بن وائل اور عقبہ بن ابو معیط وغیرہ ہیں، جو دل آزاری کی یہ بات کہنے میں پیش پیش تھے۔ خدا کی شان دیکھئے کہ اس نے دنیا میں رسولؐ اللہ کو ایسی سرفرازی اور سر بلندی عطا فرمائی کہ شب و روز کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا ہے کہ جب کسی خطۂ زمین میں حضور پُرنورؐ پر صلاۃ و سلام کی ندائے جاں فزا کانوں میں رس نہ گھولتی ہو، آپؐ کی حیات طیبہ پر جتنا کچھ لکھا گیا ہے، جتنا کچھ کہا گیا ہے اور جس قدر شعراء نے اپنے تخیلات میں بلند پروازی کی ہے، دنیا کی کسی مذہبی یا غیر مذہبی شخصیت پر اس کا ہزارواں حصہ بھی نہ کہا گیا اور نہ لکھا گیا، اپنوں کے علاوہ بے گانوں اور دوستوں کے علاوہ دشمنوں کو بھی آپ ؐ کی ذات عالی صفات کے حضور خراج تحسین پیش کرنا پڑا۔ 
 یہ ’’رفعنا لک ذکرک‘‘ (ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند فرما دیا)، کی بہترین مثال بلکہ نبوتِ محمدیؐ کا اعجاز ہے۔ ا س کے برخلاف آپؐ کے دشمنوں کا نام و نشان اس طرح مٹا کہ اگر آپؐ کے حوالہ سے ان کاذکر نہ آئے تو تاریخ کے صفحات سے بھی ان کے نام مٹ جائیں۔ آج دنیا میں کروڑوں انسان ہیں جو آپ کے نام محمد کو اپنے نام کا جز بناکر اپنے لئے سعادت و برکت حاصل کرتے ہیں اور ان میں خوشی کا احساس ہوتا ہے؛ لیکن کوئی شخص اپنا یا اپنے بچوں کا نام ابوجہل، یا ابولہب، یا عاص اور عتبہ رکھنا نہیں چاہتا۔ 
قرآن مجید نے اس سرفرازی و سربلندی اور دشمنوں اور بدخواہوں کی ناکامی و نامرادی کو دو باتوں سے جوڑا ہے: ایک خدا کے سامنے سر تسلیم جھکانا، جس کا مثالی طریقہ نماز ہے، دوسرے : خدا کے راستے میں قربانی، جس کا علامتی عمل بقرعید اور حج کی قربانی ہے۔ مسلمانوں کیلئے ان کے نبی محمد رسولؐ اللہ اور ابو الانبیاء حضرت ابرہیم علیہ السلام کا اُسوہ یہ ہے کہ آزمائش ہو یا ابتلاء، وہ اس سے گھبرائیں نہیں، امتحان ان کے پایۂ استقامت کو پھسلا نہ دے، حالات کچھ بھی ہوں، اگر ان کی پیشانیاں خدا کے سامنے خم رہیں اور خدا کی رضا و خوشنودی کے لئے قربانی و فداکاری کا اتھاہ جذبہ اس کے سینوں میں موجزن ہو، تو پھر سر بلندی، کامیابی اور سرفرازی آخرت ہی میں نہیں، دنیا میں بھی اس کے قدم چومے گی، ان شاء اللہ۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے یہی بات کہی تھی:
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK